سوہنی دھرتی اور نئے پاکستان کا
قارئین! میرا اس بات پر قوی یقین ہے کہ تصورِ پاکستان کا ادراک مسلمانانِ ہند کو 1857ءکی جنگ آزادی سے ہی ہو گیا تھا اور مسلمانوں نے انگریز سامراج سے چھٹکارا پانے کی ٹھان لی۔ پھر اس دوران ہندو بنیے کا کردار مسلمانوں پر واضح ہونا شروع ہو گیا تو خطے کے مسلمانوں نے دو قومی نظریہ پر یقین رکھتے ہوئے انگریز اور ہندو دونوں سے نجات حاصل کرنے کی ٹھان لی اور اس طرح 14اگست 1947ءکو مسلمانانِ ہند اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا دیکھا ہوا خواب شرمندئہ تعبیر ہوا۔ اگر ہم 1857ءکی جنگِ آزادی سے لے کر 2018ءتک کے واقعات اور تاریخ کا جائزہ لیں تو ہم اس سارے عرصے کو پانچ مختلف ابواب میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلا حصہ جنگ آزادی 1857ءاور اس کے بعد برصغیر کے مسلمانوں پر عرصہ¿ حیات تنگ کر دیا گیا تھا اور انگریز سامراج نے اپنی فوجی قوت کے بَل بوتے پر آزادی کی اس لہر کو دبانے کی جتنی کوشش کی اس کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمانوں نے ردعمل کے طور پر 1906ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ نواب سر سلیم اللہ خاں اور ان کے سینکڑوں ساتھیوں نے مسلم لیگ کی تشکیل کر کے دراصل دو قومی نظریئے کی بنیاد رکھ دی تھی اور یہیں سے آزادی کا دوسرا حصہ شروع ہوتاہے۔ پھر اس میں میرِ صحافت ظفر علی خاں، علی برادران اور علامہ ڈاکٹر محمد اقبال سمیت لاکھوں لوگ جوق در جوق شامل ہو گئے اور انہی کی کاوشوں کی وجہ سے محمد علی جناح مسلم لیگ کے پرچم تلے قائداعظم قرار پائے اور انہی لوگوں کی انتھک محنت کی وجہ سے ہندوستان میں پہلے انتخابات 1936ءمیں ہونا قرار پائے جس میں مسلم لیگ نے مسلم اکثریتی علاقوں میں کامیابی حاصل کرکے انگریز سامراج اور ہندو بنیے کو یہ واضح پیغام دے دیا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو دو قومی نظریئے سے پیچھے نہیں ہٹایا جا سکتا۔1939ءمیں علامہ اقبال کی اچانک رحلت تک تصورِ پاکستان کا پیغام گھر گھر پہنچ چکا تھا۔ پھر 23مارچ 1940ءکو منٹو پارک لاہور قرردادِ پاکستان منظور کی گئی جبکہ 14اگست 1947ءکو ہم باقاعدہ دنیا کی پہلی نظریاتی اسلامی ریاست کا درجہ حاصل کر چکے تھے۔ ہماری تاریخ کا تیسرا حصہ قیامِ پاکستان کے بعد حضرت قائداعظم کی رحلت اور وزیراعظم لیاقت علی خاں کی شہادت اور پہلی بھارت پاکستان جنگ پر مشتمل ہے جو 1948ءکو ہم پر مسلط کی گئی۔ نوزائیدہ مملکت پاکستاں کو جہاں وسائل بانٹتے وقت دھوکہ دیا گیا وہیں قائداعظم کے بعد آنے والی سیاسی قیادت کو ناتجربہ کاری کے باعث مشکلات پیش آئیں۔ وہیں ہمارے مخدومین، نواب زادے ،جاگیر دار اور سرمایہ دار ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے لگے اور جدید اصلاحات نہ ہونے دیں او رملک میں پہلا مارشل لاءلگا دیا گیا۔فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں(مرحوم) کے دور کے بہت سے معاشی فوائد اور ترقی اپنی جگہ مگر سیاسی اور نظریاتی طور پر اس کے نقصانات کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک زور پکڑ چکی تھی اور پھر برصغیر کے مسلمانوں نے یہ سانحہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھنا تھا جس دن ہمارا آدھا جسم ہم سے اور روح سے جدا کر دیا گیا۔ پھر باقی ماندہ پاکستان جو اپنوں اور بیگانوں کے لگائے ہوئے زخموں سے چُور تھا اسے قائدعوام شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کی بے مثال جرا¿تمندانہ جدوجہد کی اور ٹیکسلا ہیوی کمپلیکس، سٹیل ملز اور نیوکلیئر طاقت بننے کا آغاز اور اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کرکے عالمِ اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا بھٹو کے کارنامے تھے پھر ایک عالمی سازش کے تحت بھٹو کوسرِدار پہنچا دیا گیا اور ساڑھے گیارہ سال تک پاکستان پرتاریکی کے بادل چھائے رہے۔ قیام پاکستان کے صرف تیس سال بعد مملکت کو تنزلی اور جہالت کے اندھیروں میں پھینک دیا گیا۔ یہ تاریخ پاکستان کا چوتھا دور تھا جس کے نتائج قوم آج تک بھگت رہی ہے، پھر ضیا الحق کے فضائی حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد ایک دفعہ پھر ریاست جمہوریت کی طرف گامزن ہوئی اور یہیں سے تحریک پاکستان کا پانچواں باب شروع ہوتا ہے مگر صرف دس سال کے عرصے کے دوران بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نوازشریف کو بالترتیب دو دو دفعہ اقتدار سے زبردستی علیحدہ کر دیا گیا یعنی جمہوریت کے پودے کو گملے میں اُگایا گیا مگر اسے گملے میں بھی پنپنے نہیں دیا گیا اور اس دفعہ جنرل مشرف نے آٹھ نوسال تک بلاشرکت غیرے پاکستان کو اپنا تختہ مشق بنایا۔بلاشبہ اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اگر میں یہاں یہ لکھوں کہ دراصل یہ پاکستان کی معاشی ترقی کا سنہری دور تھا۔ یقینا پرویز مشرف سے سیاسی ناتجربہ کاری کی وجہ سے کچھ بنیادی سیاسی غلطیاں بھی ہوئیں مگر کارگل جنگ کے دوران جنرل مشرف نے کسی حد تک بھارت سے مشرقی پاکستان کا بدلا لے لیا تھا اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کا جلاوطنی سے واپس آنا اور سانحہ کارساز کا رونما ہونا اور پھر کچھ دن بعد الیکشن مہم کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا اور پھر نام نہاد پاکستان کھپے کانعرہ لگا کر پاکستان کے ہزاروں کریمنلز اور قومی مجرموں کے لیے این آر او کا دروازہ کھولا گیا اور اس بہشتی دروازے سے گزرنے والے ہزاروں افراد فیضیاب ہوئے ۔ باری لینے کی روایت شروع اور مستحکم ہوئی۔ قارئین! میرے آج کے اس کالم میں پاکستان کے قیام کی سوچ سے لے کر 2018ءتک کے سفر کا مختصر احاطہ کیا گیا جبکہ نئے نامزد وزیراعظم عمران خان اور ان کی پارٹی تحریک انصاف 2018ءکے بعد والے عہد کو ایک نیا پاکستان کا نام دے چکے ہیں۔ جبکہ میری تحقیق کے مطابق 1857سے لے کر 2018ءتک پاکستان پانچ بار بدلا اور نیا بنایاجا چکا ہے اور اب بھی جو ٹیم عمران خان کے اردگرددیکھی جا سکتی ہے تو ان کے لیے فقط اتنا کہنا کافی ہے کہ ”ان تِلوں میں تیل نہیں“ قارئین! سیاسی قیادتیں نظریاتی کارکن پیدا کرتی ہیں اور وہ پیدائشی سیاسی اور نظریاتی کارکن آنے والے مستقبل کے معمار ثابت ہوتے ہیں۔ سیاسی لانڈرنگ مشین سے دھل کر آنے والے لوٹے سیاست دان کبھی انقلاب برپا نہیں کر سکتے۔ بھٹو اپنی شہادت کے چالیس سال بعد بھی سیاسی کارکنوں اور جیالوں کی سیاسی تربیت کے باعث ابھی بھی کہیں کہیں زندہ ہے جبکہ محترم عمران خان اپنے سیاسی کارکنان اور فالوورز کو کونسا ویژن، لٹریچر اور سیاسی تربیت کی ہے جو الٰہ دین کے چراغ کی طرح فوری طور پر مسائل حل کرنا شروع کر دیں گے۔ یاد رکھیے اگر نیا پاکستان شروع کرنا ہے تو پرانے پاکستان کے نامکمل باب مکمل کرنے ہوں گے اور سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچائے بغیر نئے پاکستان میں داخل ہونا ناممکن ہوگا۔