محمد علی جناح اور قیام پاکستان
1857کی ناکام جنگ آزادی میں اگرچہ مسلمانوں کے ساتھ ہندو بھی شامل ہوئے تھے لیکن انگریزی حکومت کا زیادہ تر عذاب مسلمانان ہند پر بھی نازل کیاگیا ۔ ”نزلہ برعضو ضعیف می ریزد “ کے مصداق انگریزوں نے مسلمانوں کو ہر شعبہ حیات میں پس ماندہ کر دیا تاکہ وہ کسی طرح بھی دوبارہ عروج حاصل نہ کر سکیں ، ان حالات میں کئی ہمدرد قوم اور مخلص مسلم راہنما آگے بڑھے تھے۔اس ضمن میں شاہ ولی اللہ ، سر سید احمد خان ، مولانا شبلی نعمانی، مولانا حالی، اکبر الٰہ آبادی، علامہ اقبال ، مولانا ظفر علی خان، چوہدری رحمت علی اور محمد علی جناح کے اسمائے گرامی زیادہ قابل ذکر ہیں ، علاوہ ازیں ان گنت ہمدرد مسلمانوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق قیام پاکستان کے خواب کو ایک زندہ حقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے جدوجہد کی تھی۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح قیام پاکستان کے کیوں حامی تھے ، اور وہ کن مقاصد کو پیش نظر رکھ کر آگے بڑھے تھے۔
سیاسی آزادی کا حصول:
محمد علی جناح پر جب کانگریس کی مسلم دشمنی کا راز فاش ہوا تو انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو کر اسلامیان ہند کی بہتری کو اپنا مقصد حیات بنا لیا تھا ، مسلم لیگ میں ان کی شمولیت سے سیاسی آزادی کی تحریک میں بھی شدت پیدا ہوگئی ، لیگی قائدین اور ان کے ہمنوا علماءو دانش ور رنگ ، نسل ، جغرافیائی حدود اور زبان کی بجائے لا الہ الااللہ کو مسلم قومیت کی بنیاد خیال کرتے تھے ، شاعر مشرق علامہ اقبال اس نقطہ نگاہ کی یوں ترجمانی کرتے ہیں :
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت گئی
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
بانی پاکستان محمد علی جناح بھی حضرت علامہ کی ہمنوائی کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں” مجھے دوبارہ یہ کہنے دیجئے کہ انڈیا نہ تو ایک قوم ہے اور نہ ہی یہ ایک ملک ہے ، انڈیا کئی قوموں پر مشتمل ایک برصغیر ہے جس کی دو بڑی قومیں ہند واور مسلمان ہیں“ (1اکتوبر1939) جب یہ ثابت ہوگیا کہ مسلمان الگ قومیت کے حامل ہیں تو .... قومی زندگی گزارنے کے لئے ایک علیحدہ خطہ زمین بھی درکار تھا ، اس لئے وہ قیام پاکستان کےلئے سیاسی آزادی کے بہت بڑے نقیب بن گئے تھے ۔
مسلم ثقافت کا تحفظ:
پاکستان کو ایک جداگانہ اور خود مختار مملکت کی حیثیت سے معرض وجود میں لانے کا اہم مقصد یہ بھی تھا کہ مسلمانان ہند کی تہذیب و ثقافت کو نہ صرف محفوظ رکھا جائے بلکہ اسے وہاں آزادی کے اصولوں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق فروغ بھی دیا جائے ۔ باقی تقاضوں کی طرح دین اسلام بھی مخصوص ثقافت کا آئینہ دار ہے اور یہی ثقافت مسلمانوں کو غیر مسلموں سے ممیز کرتی ہے ۔محمد علی جناح کو یہ نظریہ کسی طرح بھی قبول نہیں تھاکیونکہ اسلام نا سازگار اور غیر اسلامی ماحول میں فروغ پذیر نہیں ہو سکتاجس طرح ناساز گار ماحول میں عمدہ پودا بھی نہیں پنپ سکتا بعینہ کافرانہ ماحول میں اسلام اپنے بہترین برگ و بر پیدا کرنے سے قاصر ہے ۔ عبادات غلبہ اسلام کےلئے مجاہدین تیار کیا کرتی ہیں جیسا کہ علامہ اقبال کہتے ہیں :
یہ حکمت ملکوتی یہ علم لاہوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
اقتصادی خوشحالی کی آرزو:
اس امر سے انکار محال ہے کہ قیام پاکستان سے قبل برصغیر پاک و ہند کی اقتصادیات پر انگریزوں کے بعد ہندو لوگ چھائے ہوئے تھے، پاکستان کے ایک اور ممتاز قومی راہ نما چودھری رحمت علی کے قوم کے مطابق اس ”برٹش بنیا اتحاد“ (BRISTISH BANIA ALLIANCE) کی بنا پر انڈین برصغیر میں عام مسلمانوں کی اقتصادی حالت اس قدر زبوں بنا دی گئی تھی کہ وہ ماشکیوںاور چوب تراشوں کی سطح پر آگئے تھے۔ قیام پاکستان کا ایک ضروری مقصد اقتصادی خوشحالی بھی تھا ، یہاں اس بات کی وضاحت کر دی جائے کہ محمد علی جناح پاکستان میں کسی قسم کے اقتصادی استحصال اور معاشی بنیادوں پر طبقاتی کشمکش کے حق میں نہیں تھے ۔ وہ سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کو سخت وارننگ دیتے ہوئے کہتے ہیں ” میں یہاں ان زمینداروں اور سرمایہ داروں کو یہ تنبیہ کروں گا جنہوں نے ایک غلط نظام کے سہارے ہمیں نقصان پہنچا کر خود ترقی کی ہے.... لوگوں کا استحصال ان کے خون میں رچ بس گیا ہے ، انہوں نے اسلام کے اسباق کو بھلا دیاہے .... میں نے دیہات میں جا کر دیکھا ہے کہ ہمارے لاکھوں لوگوں کو ایک دن کا کھانا بھی مشکل سے ملتا ہے، کیا اس کانام تہذیب ہے؟ کیا یہی مقصد پاکستان ہے ؟.... اگر پاکستان کا یہی مقصد ہے تو میں ایسے پاکستان کو حاصل نہیں کروں گا “(24اپریل 1943)
عوامی فلاح و بہبود کا جذبہ:
حکومت کے بنیادی فرائض میں قیام امن عوام کی جان ، عزت اور آبرو کی حفاظت ، عدل و انصاف، اندرونی استحکام، ملکی دفاع ، رعایا کے جائز حقوق کی نگہداشت اور ان کی فلاح و بہبود کی سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں۔ بانی پاکستان ایک ایسے دور اندیش سیاستدان تھے جو ان حقائق سے بخوبی آگاہ تھے ، یہی وجہ ہے ان کی رائے میں پاکستان کی تاسیس کا ایک اعلیٰ مقصد عوام الناس کی فلاح و بہبود تھا انہوں نے سیاستدانوں ، طلباء، سماجی کارکن ، امیروں اور وزراءکو بار بار اس بات کی تاکید کی تھی کہ خلوص کے ساتھ بہتری اور اجتماعی مفادات کے لئے کام کرتے رہیں ان کے مندرجہ ذیل تین اقوال اس حقیقت کے عکاس دکھائی دیتے ہیں انہوں نے مختلف مواقع پر یہ کہا تھا : ”تمہارا اولین فرض عوام کی بہبود کے لئے تعمیری اور فلاحی لائحہ عمل تیار کرنا اور مسلمانوں کی سماجی ، اقتصادی اور سیاسی ترقی کے ذرائع کے بارے میں سوچنا ہے“۔ (اکتوبر1937)
”اسلام کے خادموں کی حیثیت سے تم آگے بڑھو اور عوام کو اقتصادی، سماجی، تعلیمی اور سیاسی طور پر منظم کرو“۔(مارچ 1940) ”آئیے ہم عوام کی اجتماعی فلاح اور اعلیٰ نیک مقصد کی خاطر اپنے ذاتی فائدوں اور سہولتوں کو چھوڑدیں پاکستان کایہی مقصد ہے “(4اپریل 1943)
میں نے بڑے اختصار کے ساتھ قائداعظم محمد علی جناح کے تصور پاکستان کے اہم عناصر ترکیبی کو بیان کر دیا ہے تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ انکے ذہن میں پاکستان کے قیام کا کیا خاکہ تھا ، اب یہ ہماری ملی ذمہ داری ہے کہ ہم پاکستان کے استحکام نظام اسلام اور بہبود عوام کی خاطر اپنی باہمی رقابتوں ، صوبائی عصبیتوں ذاتی مفاد پرستیوں اور سیاسی محاذ آرائیوں کو ترک کرکے باہمی اتحاد، تنظیم اور ایمان کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں ا ور پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل کردیںاور ملی ترقی کا ذریعہ بنیں۔
اندازِ بیان گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات