قائداعظم کا نامکمل ایجنڈا اور عمران خان
برصغیر کے مسلمانوں نے 14اگست 1947ءکو جغرافیائی آزادی حاصل کرکے دنیا کی نئی ریاست پاکستان کی بنیاد رکھ دی اور قائداعظم کی قیادت میں انگریز کے دو سو سالہ نوآبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کرنے کا آغاز بھی کردیا تھا۔ قائداعظم نے گورنر جنرل کی حیثیت سے نئی آزاد ریاست کو نئے پاکستانی نظام کے تحت چلانے کیلئے بنیادی اُصول طے کردئیے تھے۔ انہوں نے اپنے 11اگست 1947ءکے تاریخی خطاب میں کرپشن کو ریاست کیلئے زہر اور امن و امان کے قیام کو ریاست کی اولین ذمے داری قرار دیا۔ انہوں نے چودہ اگست کے استقبالیہ میں شریک ایک کرنل کو سول امور میں مداخلت پر ڈانٹ دیا اور کہا کہ فوج کا کام صرف اور صرف سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔
قائداعظم نے 1948ءمیں کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان کا جمہوری نظام سماجی انصاف مساوات، فیرپلے، اعلیٰ دیانت اور احتساب کے اُصولوں پر تشکیل دیا جائےگا۔ انہوں نے 1948ءمیں ہی سٹیٹ بنک کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا پاکستان کا معاشی نظام مغربی سرمایہ دارانہ نہیں ہوگا بلکہ اسلام کے سنہری اُصولوں کے مطابق مساوات اور سماجی انصاف پر مبنی ہوگا۔ قائداعظم نے بیوروکریسی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ حاکم نہیں بلکہ عوام کے خادم ہیں۔ قائداعظم نے اُردو کو قومی سرکاری زبان قرار دیا اور پاکستانیوں کو لازمی جبری تعلیم دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ علیحدگی پسند صوبائیت کے خلاف اور پاکستانی نیشلزم کے قائل تھے۔
قائداعظم جاگیرداری کے سخت خلاف تھے۔ ان کو موقع ملتا تو وہ بھی بھارت کی طرح پاکستان میں زرعی اصلاحات کرکے جاگیرداری ختم کردیتے۔ قائداعظم پاکستان کو سائنس اور ٹیکنالوجی کا مرکز بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اقربا پروری کو مسترد کرتے ہوئے میرٹ پر کابینہ، سفارتکاروں اور اعلیٰ سرکاری افسروں کا انتخاب کیا۔ قائداعظم نے پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام کو پاکستان کیلئے موزوں قرار دیا۔ قائداعظم کو اگر موقع ملتا تو وہ اپنے ایجنڈے کیمطابق پاکستان کو ذہنی اور فکری غلامی سے بھی نجات دلادیتے اور پاکستان حقیقی معنوں میں جغرافیائی، سیاسی، سماجی، معاشی اور فکری اعتبار سے ایک آزاد ریاست بن جاتا۔ قائداعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے خفیہ اور خاموش سفارتکاری کے ذریعے کوشش کی کہ آزادی کے بعد پاکستان پر انگریزوں کا نظام ہی مسلط رہے تاکہ انکے سامراجی(قومی) مفادات آگے بڑھتے رہیں۔
اس مقصد کیلئے جاگیرداروں، تاجروں، انگریز کی تربیت یافتہ نوکر شاہی، سکندر مرزا، چوہدری غلام محمد اور جنرل ایوب خان کو استعمال کیا گیا جو سٹیٹس کو بحال رکھنے کیلئے سہولت کار بن گئے۔سول عسکری بیوروکریسی اور تاجروں و جاگیرداروں نے انگریزوں کے خلا کو پُر کیا اور اپنے مفادات کیلئے انگریز کے نظام کو جاری رکھا۔ ستر سال کے بعد بھی ہمارا تعلیمی، معاشی، سیاسی، عسکری، عدالتی اور پولیس کا نظام انگریزوں کا تشکیل کردہ ہے جو انہوں نے ہندوستان کے عوام کو غلام رکھنے اور ان کا استحصال کرنے کیلئے وضع کیا تھا۔
نوآبادیاتی نظام آج بھی جاری ہے گویا ہم 1947ءکی طرح ہی ریاست کو چلارہے ہیں۔ ہمارے آقا بدلے ہیں جبکہ نظام بدستور عوام دشمن ہے۔ قائداعظم کا ایجنڈا ہنوز نامکمل ہے جسے مکمل کرنے کا عہد عمران خان نے کررکھا ہے۔ بھٹو شہید کے بعد تاریخ نے عمران خان کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ انگریز کے ریاستی نظام کو تبدیل کرکے نئے پاکستان کا نیا نظام مساوات، سماجی انصاف، برداشت، میرٹ، قانون کی حکمرانی، شفاف احتساب اور عوام کی شرکت کے اُصولوں پر تشکیل دیں۔
عمران خان نیک نیت، پرعزم اور دیانتدار ہیں۔ نوجوانوں کی طاقت ان کے ساتھ ہے۔ انشاءاللہ وہ اچھی حکمرانی اور اعلیٰ معیار کی دیانت سے اپنے سیاسی مخالفین کے مذموم عزائم کو ناکام بنادینگے اور انکی عوامی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جائیگا۔ غیر جانبدار مبصر اور تجزیہ نگار متفق ہیں کہ اگر خدانخواستہ عمران خان ناکام ہوئے تو ریاست شدید مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ عمران خان نے قومی اسمبلی کے سابق سپیکر فخر امام، ڈاکٹر شعیب سڈل، طارق کھوسہ، عبدالرزاق داﺅد، ڈاکٹر عطاءالرحمن اور ڈاکٹر عشرت حسین جیسی نیک نام اور اہل شخصیات سے فائدہ اُٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پوری توقع ہے کہ عمران خان صدر پاکستان کے منصب کیلئے بھی ایسی موزوں شخصیت کا انتخاب کرینگے جو اندرونی سیاسی استحکام، صوبوں کے درمیان ہم آہنگی اور عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے کیلئے مو¿ثر اور فعال کردار ادا کرسکے۔ پاکستان کے سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری‘ عمران خان کے قابل اعتماد رفقاءمیں شامل ہیں۔ انکے دادا مولانا عبدالقادر قصوری تحریک آزادی اور تحریک خلافت کے ممتاز رہنما تھے۔ انکے والد میاں محمود علی قصوری‘ بھٹو شہید کی کابینہ میں وفاقی وزیر قانون تھے۔ پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنما میاں محمود علی قصوری کا بے حد احترام کرتے تھے اور لاہور میں ان کا گھر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ خورشید محمود قصوری کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا اعتماد حاصل رہا۔ انکے چاروں صوبوں میں بااثر دوست موجود ہیں اور دنیا کے عظیم ملکوں میں بھی انکی شناخت اور وقار قابل رشک ہے۔ تحریک انصاف اگر ان کو صدارت کیلئے اپنا اُمیدوار نامزد کرے تو پی پی پی بھی ان کو ووٹ دینے پر آمادہ ہوسکتی ہے اور وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکر پاکستان کیلئے قابل ذکر خدمات انجام دے سکتے ہیں۔
محترم سعید آسی کا شمار پاکستان کے ممتاز ، نیک نام اور نظریاتی صحافیوں میں ہوتا ہے۔ ان کا قلم ہمیشہ آئین اور قانون کی حکمرانی اور افتادگان خاک کے بنیادی حقوق کا پرچار کرتا رہا ہے۔ وہ مجاہد صحافت ڈاکٹر مجید نظامی کے نمایاں رفقاءکی صف میں شامل ہیں۔ اسلام اور پاکستان سے لازوال محبت اور جمہوریت سے وابستگی انکی تحریروں کی روح ہیں۔ قلم فاﺅنڈیشن انٹرنیشنل نے محترم سعید آسی کی زندہ اور جاندار تحریروں کو ”تیری بکل دے وچ چور“ کے نام سے شائع کیا ہے۔ بلاشبہ وہ قلم قبیلہ کی ان چند شخصیات میں شامل ہیں جن کی بدولت ادب وصحافت کا بھرم قائم ہے۔ تاریخ اور صحافت کے طلبہ اس کتاب سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ کتاب میں شامل ”بھٹو لیگیسی اور زرداری فلاسفی“ ”تیرا مکہ رہے آباد مولا“ اور ”سیاسی اور ماحولیاتی گردو غبار“ جیسے شاہکار کالم پڑھ کر علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے جو محترم سعید آسی پر صادق آتا ہے۔....
اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ہیں ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ سکا نہ قند
”میں ہوں عمران خان“ کے نام سے دیدہ زیب سرورق کے ساتھ اپنی نوعیت کی منفرد، دلچسپ اور معیاری کتاب عین وقت پر گزشتہ ہفتے بک سٹالز کی زینت بنی ہے۔ وطن عزیز کے سینئر کالم نگار، صحافی اور دانشور برادرم فضل حسن اعوان نے بڑی محنت اور قومی جذبے کے ساتھ اس کتاب کو ترتیب دیا ہے۔ یہ کتاب عمران خان کی شخصیت، سیاست اور کردار کے ہر پہلو کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ عمران خان کا خاندان ، پس منظر، بچپن، کرکٹ، شوکت خانم، نمل یونیورسٹی، 22سالہ سیاسی جدوجہد، پانامہ کا ہنگامہ، ریحام خان حقیقت اور افسانہ، روہانیت کی راہ پر اس کتاب کے اہم ابواب ہیں۔ عمران خان کے کپتان سے وزیراعظم تک کے سفر کو بڑے دلچسپ پیرایے میں بیان کیا گیا ہے اور عمران خان کے خلاف لگائے گئے بے بنیاد الزامات کا اس آرزو کے ساتھ مدلل جواب دیا گیا ہے کہ عمران خان کی کامیابی‘ غلام عوام کی آزادی اور اشرافیہ کی شکست کا باعث بنے۔ ظاہری آزادی 1947ءمیں ملی تھی حقیقی آزادی 2018ءمیں مل جائے۔ تحریک انصاف کے ہر لیڈر اور کارکن کیلئے اس کتاب کا مطالعہ لازم ہے تاکہ وہ اپنے لیڈر کی مکمل شخصیت کا احاطہ کرکے عوامی سطح پر لیڈرشپ کو مستحکم کرسکیں اور اپوزیشن کے پروپیگنڈے کا جواب دلیل کے ساتھ دے سکیں۔ یہ کتاب دعا پبلی کیشنر اُردو بازار لاہور نے شائع کی ہے۔