وطن عزیز کا 72 واں یوم آزادی۔ نئے پاکستان کی جانب سفر کا آغاز
قائداعظم کی امنگوں کےمطابق تعمیر و استحکام پاکستان نئے حکمرانوں کا مطمح¿ نظر ہونا چاہیے
وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 72ویں یوم آزادی کا سورج آج نئے پاکستان کی امنگوں کے ساتھ ابھر رہا ہے۔ گزشتہ روز 13 اگست کو نومنتخب ارکان قومی اسمبلی نے آئین پاکستان کے تحت اپنی رکنیت کا حلف اٹھا کر ملک کی 15ویں منتخب اسمبلی کی عملداری کا آغاز کیا اور آج 14 اگست کو قوم جشن آزادی مناتے ہوئے وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے ماتحت مستحکم جمہوری پاکستان کیلئے بھی دعاگو ہوگی اور اسکے دفاع و تحفظ کیلئے سیسہ پلائی دیوار بننے کا بھی اسکے دشمنوں کو ٹھوس پیغام پہنچائے گی۔ آج یوم آزادی بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح کے ویژن کے مطابق مادر وطن کو امن‘ ترقی اور خوشحالی کا گہوارہ بنانے کے پختہ عزم کی تجدید کے ساتھ قومی و ملی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں آج ملک بھر میں عام تعطیل ہے۔ پرنٹ میڈیا نے آج جشن آزادی کے حوالے سے خصوصی اشاعتوں کا ہتمام کیا ہے جبکہ سرکاری اور نجی الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے آج وطن سے محبت کے جذبے کو اجاگر کرنیوالی خصوصی نشریات کا اہتمام کیا گیاہے۔ آج دن کا آغاز ملک بھر کی مساجد میں نماز فجر کے بعد ملکی ترقی‘ قومی یکجہتی‘ امن اور خوشحالی کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کی طویل جدوجہد کی کامیابی کیلئے خصوصی دعاﺅں کے ساتھ ہوگا۔ آج دن کے آغاز پر وفاقی دارالحکومت میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21,21 توپوں کی سلامی دی جائیگی۔ صبح آٹھ بجکر 58 منٹ پر ملک بھر میں سائرن بجائے جائینگے اور صبح 9 بجے وفاقی دارالحکومت میں پرچم کشائی کی مرکزی تقریب منعقد ہوگی۔ آج لاہور میں مزار اقبال پر مختلف تنظیمیں حاضری دینگی جبکہ صوبائی دارالحکومتوں کے علاوہ آزاد کشمیر‘ گلگت بلتستان کے دارالحکومتوں اور ملک کے تمام ضلعی ہیڈکوارٹرز میں بھی پرچم کشائی کی تقاریب منعقد ہونگی جبکہ تمام سرکاری اور نجی عمارات پر قومی پرچم لہرایا جائیگا۔ رات کے وقت بلند و بالاسرکاری اور نجی عمارات پر چراغاں کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ اسی طرح بیرون ملک پاکستانی مشنز میں بھی پرچم کشائی کی پروقار تقاریب کا اہتمام ہوگا جن میں قومی ترانہ بجایا جائیگا اور یوم آزادی کے حوالے سے صدر مملکت اور وزیراعظم کے پیغامات سنائے جائینگے۔ ہفتہ¿ جشن آزادی کے حوالے سے ملک بھر میں سیمینارز‘ کانفرنسز‘ تقریری مقابلوں‘ قرا¿ت اور نعت خوانی کے مقابلوں‘ مشاعروں اور دوسری خصوصی تقریبات کا سلسلہ بھی جاری ہے جس کا مقصد جدوجہد آزادی اور نظریہ¿ پاکستان کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کے قائدین اور کارکنوں کی بے مثال قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنا اور نوجوان نسل کو بانی¿ پاکستان قائداعظم کی شخصیت کے مختلف پہلوﺅں اور قیام پاکستان کیلئے انکی غیرمتزلزل جدوجہد سے روشناس کرانا ہے۔
آج کے یوم آزادی کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ گئی ہے کہ آج ملک کی 15ویں منتخب اسمبلی کے ذریعے انتقال اقتدار کے مراحل طے کرتے ہوئے قوم کو نئے پاکستان کی فیوض و برکات سے روشناس کرایا جارہا ہے جبکہ اس ملک خداداد کو اسکی سلامتی اور بدترین اقتصادی مسائل کے حوالے سے ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی جانب سے کھڑے کئے گئے کئی چیلنجوں کا سامنا ہے جن سے بہرصورت ملک کے نئے حکمرانوں نے عہدہ برا¿ ہونا ہے۔ اگرچہ 25 جولائی 2018ءکے انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو حکومت سازی کیلئے سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوسکی تھی تاہم مختلف جماعتوں کے ارکان اور آزاد حیثیت میں منتخب ہونیوالے امیدواروں کو ساتھ ملا کر پاکستان تحریک انصاف آج وفاق اور تین صوبوں پنجاب‘ خیبر پی کے اور بلوچستان میں اپنی حکومتیں تشکیل دینے کی مستحکم پوزیشن میں ہے اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا وزیراعظم بننے کا خواب شرمندہ¿ تعبیر ہونے میں بھی اب چند ساعتوں کا ہی فاصلہ رہ گیا ہے۔ اس طرح آج کا 72واں یوم آزادی بالخصوص پی ٹی آئی کیلئے بھی یادگار دن بن گیا ہے کہ اس روز پی ٹی آئی کی حکومت کی بھی بنیاد رکھی جارہی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وطن عزیز کی سالمیت اور آزادی و خودمختاری کو شروع دن سے ہی اسکے پڑوسی ملک بھارت سے خطرہ لاحق ہے جس نے اس ملک خداداد کی تشکیل نہ صرف دل سے قبول نہیں کی بلکہ ایک گھناﺅنی سازش کے تحت اسے دولخت بھی کرچکا ہے اور باقیماندہ پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی بھی بدنیتی رکھتا ہے جس کیلئے اس نے پاکستان کے اندر بھی اپنا سازشی نیٹ ورک پھیلا رکھا ہے جس کے تحت یہاں دہشت گردی کو فروغ دیکر اس وطن عزیز کو اقتصادی عدم استحکام سے دوچار کرنے اور اس تناظر میں تحفظ و دفاع وطن کی ذمہ دار عساکر پاکستان کی توجہ منقسم کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ دہشت گردی کے حوالے سے امریکہ نے بھی اسکے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کے باوصف اس کا اقتصادی اور دفاعی ناطقہ تنگ کرنے کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ نئے حکمرانوں کیلئے ملک کے باہر سے ان دو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہوگا جبکہ ملک کے اندر پھیلے بدامنی‘ بے روزگاری‘ عدم مساوات‘ میرٹ کے قتل‘ اقرباپروریوں اور قومی دولت ووسائل کی لوٹ مار کے کلچر سے عوام کی نجات دلانے کے ایسے سخت چیلنجز ہیںجن کا نئے پاکستان کے نئے حکمرانوں کو سامنا ہوگا۔
یہ حقیقت تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو چکی ہے کہ متعصب ہندو اکثریت نے مسلم دشمنی کے باعث برصغیر کے مسلمانوں کا عرصہ¿ حیات تنگ کرکے اور انہیں اپنے سے کمتر انسان کا درجہ دیکر خود دو قومی نظریے کی بنیاد رکھی تھی جو تحریک پاکستان کی بھی بنیاد بنی اور بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوئی‘ جس میں قائداعظمؒ کی بے بدل قیادت میں ایک ایسے جدید اسلامی فلاحی جمہوری معاشرے کی تشکیل اور اس آزاد و خودمختار پاکستان کا تصور متعین ہوا‘ جس میں مسلمانوں کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو گی بلکہ انہیں اقتصادی غلامی کے شکنجے میں جکڑنے والی ہندو بنیاءذہنیت اور انگریز کے ٹوڈی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے استحصال سے بھی نجات ملے گی اور اس خطہ کے مغلوب مسلمانوں کی جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں قائم ہونیوالی اس مملکت خداداد میں خلقِ خدا کے راج کا تصور بھی عملی قالب میں ڈھل جائیگا۔ قیام پاکستان کے مقاصد‘ اسکے نظریہ اور نظام کے حوالے سے قائداعظم کے ذہن میں کوئی ابہام نہیں تھا چنانچہ وہ قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران ہر مرحلے پر مسلمانانِ برصغیر اور دنیا کو قیام پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کرتے رہے۔ آج جو دانشور حلقے نظریہ¿ پاکستان اور قیام پاکستان کے مقاصد کے حوالے سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حقائق کو مسخ کرکے پیش کر رہے ہیں‘ انہیں اسلامیہ کالج پشاور میں قائداعظم کی 13 جنوری 1948ءکی تقریر کے یہ الفاظ ذہن نشین کرلینے چاہئیں کہ ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں کیا تھا‘ بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے‘ جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔“
بدقسمتی سے قائد کی رحلت کے بعد ”کھوٹے سکوں“ نے اپنے مفادات کی بجاآوری میں پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے بجائے مسائل کی آماجگاہ بنا دیا۔ سیاست دانوں کی آپس کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایوب خان نے آمریت مسلط کی‘ پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور پاکستان کے 71 میں سے 33 سال فوجی آمریت کی نذر ہو گئے۔ خارجہ پالیسی کا یہ عالم رہا کہ ہم کشمیر تو کیا حاصل کرتے آدھا پاکستان گنوا بیٹھے اور بھارت نے کشمیر سے متصل سیاچن کے ایک بڑے حصے پر بھی قبضہ کرلیا۔ سیاست دان قائداعظم کے صحیح جا نشین ہوتے تو ملک میں جمہوریت مضبوط ہوتی‘ آمریت کے سائے وطن عزیز پر نہ پڑتے‘ وسائل کو بروئے کار لا کر ملک و قوم ترقی و خوشحالی کی منازل سے ہمکنار ہو چکی ہوتی۔
قائداعظم کی خواہش کے مطابق بعد میں آنے والے حکمرانوں نے وطن عزیز کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا تھا، مگرجمہوری اور آمرانہ دونوں ادوار میں اس طرف توجہ نہ دی گئی۔ جنرل ضیاءالحق گیارہ سال تک نفاذ اسلام کی بات کرتے رہے لیکن قوم و ملک کو کوئی ٹھوس سسٹم نہ دے سکے۔ مختلف ادوار میں فرقہ واریت کو حکومتی سطح پر شہہ ملتی رہی۔ جرنیلی آمروں نے اپنے مفادات کیلئے کبھی نسل پرست جماعتوں کی پشت پناہی کی‘ کبھی مذہبی گروہوں اور کبھی لسانی گروپوں کی۔ ان میں سے کئی اتنے طاقتور ہو گئے کہ ریاست کو چیلنج کرنے لگے۔ آج کی دہشت گردی بھی ایسا ہی ایک ناسور ہے جو سانحہ اے پی ایس پشاور سے واہگہ بارڈر لاہور کے سانحہ تک اور سانحہ¿ گلشن اقبال پارک لاہور سے آج بلوچستان اور خیبر پی کے میں پے در پے ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات تک ملک اور شہریوں کے تحفظ و سلامتی کے ذمہ دار اداروں میں موجود کمزوریوں اور خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے اصلاح احوال کے عملی اقدامات کا متقاضی ہے۔
بدقسمتی سے قائد کے پاکستان کو پہلے مفاد پرست سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ نے جمہوری عدم استحکام پیدا کرکے نقصان پہنچایا جبکہ آج دہشت گردی کا ناسور ملک کی بنیادیں ہلا رہا ہے اور اس ناسور سے خلاصی کیلئے مشترکہ سوچ کے تحت وضع کیا گیا نیشنل ایکشن پلان بھی مو¿ثر ثابت نہیںہو رہا ۔ ایسے چیلنجوں سے عہدہ برا¿ ہونا نئے حکمرانوں کیلئے کڑا امتحان ہے۔
دہشتگردی کی موجودہ فضا میں قوم کے اندر یکجہتی اور یگانگت کی اشد ضرورت ہے۔ دشمن پاکستان کے عظیم تر سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے در پے ہے۔ ان حالات میں قوم کے اتحادکی ضرورت مزید دو چند ہو جاتی ہے۔ قوم میں اتحاد پیدا کرنے کی اولین ذمہ داری سیاستدانوں کی ہے مگر سیاست میں آج جو انتشار اور خلفشار پایا جاتا ہے، ایسا ماضی میں خال خال ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ سیاستدانوں کے عدم برداشت کے رویئے قوم کو تقسیم کر رہے ہیں۔ تحمل اور برداشت کی جگہ نفرت لے رہی ہے۔اختلافات ذاتی دشمنی تک جا رہے ہیں جنہیں 25 جولائی کے انتخابات کے نتائج سے مزید تقویت ملی ہے۔ ان نتائج کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کو مطعون کیا جارہا ہے اور نئی حکومت کی تشکیل سے پہلے ہی نئے انتخابات کا تقاضا کرنیوالی ایک مضبوط کمبائنڈ اپوزیشن معرضِ وجود میں آچکی ہے۔ اس صورتحال میں ملک میں سیاسی محاذآرائی کے مزید فروغ پانے کا اندیشہ لاحق ہے جو جمہوریت کا سفر کھوٹا کرنے پر منتج ہو سکتی ہے اس لئے آج جمہوری جذبوں اور اقدار کو فروغ دیکر جمہوریت دشمن عناصر کی سازشوں کو مات دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اس کیلئے بہرصورت پی ٹی آئی کی قیادت اور حکومت کو فراخدلی اور فہم و بصیرت سے کام لینا ہوگا اور انتخابی عمل کے بارے میں اپوزیشن کے تحفظات دور کرنا اور انکی جائز شکایات کے ازالے کیلئے اقدامات اٹھانا ہونگے تاکہ سسٹم کو سیاسی عدم استحکام کے سایوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔
اس وقت ہمارے دیرینہ مکار دشمن بھارت میں پاکستان دشمن ہندو انتہاءپسندوں کی نمائندہ جماعت بی جے پی کی حکومت کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کیخلاف جو گھناﺅنی سازشیں کی جا رہی ہیںاور شہ رگ پاکستان کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کیلئے بھارتی فوجوں اور پیراملٹری فورسز نے جس وحشیانہ انداز میں کشمیریوں کا عرصہ¿ حیات تنگ کرکے بالخصوص کشمیری نوجوانوں کو شہید اور مستقل اپاہج کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ اسکے پیش نظر آج یوم آزادی کے موقع پرقوم اور حکومت کی جانب سے کشمیری عوام کو انکی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا پیغام دینا اور ملک کی سلامتی‘ خودمختاری کے تحفظ کیلئے بھی پوری قوم کا یکجہت ہونا اور اسکے ساتھ ساتھ قیام پاکستان کے مقاصد سے بالخصوص نئی نسل کو آگاہ رکھنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ کشمیر ی عوام کل بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پر منائیں گے۔
آج یوم آزادی کے موقع پر تمام سیاسی قیادتوں کو اسی حوالے سے غور و فکر کرنا چاہیے کہ انکے سیاسی مفادات اور کوتاہ بینیاں کہیں ملک کو پھر اس جمہوریت کی پٹڑی سے اتارنے کے راستے تو ہموار نہیں کررہیں جس کی بنیاد پر بانیانِ پاکستان نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک آزاد و خودمختار ارض وطن کے خواب کو حقیقت کے قالب میں ڈھالا تھا۔ آج ہمیں جمہوریت کے تحفظ اور ملک کی سلامتی کیلئے زیادہ فکرمند ہونا چاہیے۔ دہشتگردی، سیاسی خلفشار اور علاقائی حالات بلاشبہ قومی یکجہتی و یگانگت کے متقاضی ہیں۔