پاکستان کا قیام، برطانوی سامراج کے خلاف برعظیم کے مسلمانوں کی دو سوسالہ جدوجہد کا حاصل اور ثمرہ ہے۔ جہاں یہ اللہ تعالیٰ کا انعام خاص ہے، وہیں ایک تاریخی جدوجہد اور اس میں پیش کی جانے والی بیش بہا قربانیوں کا پھل بھی ہے۔
یہ امر پیش نظر رہنا چاہیے کہ پاکستان کا قیام ،تحریک پاکستان کی حتمی سات سالہ جدوجہد کا حاصل نہیں بلکہ یہ 200 سال سے زیادہ عرصے پر پھیلی ہوئی اس تحریکِ آزادی کا ثمرہ ہے، جو برطانوی سامراج کے برعظیم میں قدم جمانے کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی اور جس کے کم از کم تین بڑے واضح مرحلے دیکھے جا سکتے ہیں:
l اولاً، عسکری قوت سے سامراجی حکمرانوں کا مقابلہ اور مسلم اقتدار کی بحالی۔
l ثانیاً، سیاسی جدوجہد کا آغاز اور برعظیم کے تمام ہم وطنوں کے ساتھ مل کر سیاسی آزادی کی ایسی جدوجہد کہ جس میں مسلمان اپنا نظریاتی،دینی، سیاسی اور تہذیبی تشخص برقرار رکھ سکیں اور غیر مسلم اکثریت میں ضم نہ ہو جائیں۔ علاقائی قومیت کے مقابلے میں دو قومی نظریے کا ارتقا، اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایسا سیاسی انتظام، جو کثیر قومی( State of Nationalities)کا متبادل مثالیہ( paradigm) پیش کر سکے۔ 1938-39ءتک یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ انڈین نیشنل کانگریس جو دراصل ابتدا سے آج تک برہمنوں ہی کی گرفت میں رہی ہے، اس تصور کو کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں تھی، نہ ہے۔ اس کا مقصد عددی اکثریت کا غلبہ اور جمہوریت و سیکولرزم کے نام پر ہندو قوم پرستی کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ عملاً 1935ءکے قانون کے تحت انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتوں نے اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔
l اس پس منظر میں مسلمانوں کی تحریک کا تیسرا مرحلہ شروع ہوا۔ علمی اور عملی دونوں میدانوں میں اور دو قومی نظریے کو سیاسی حقائق کی روشنی میں برعظیم کے مسلمانوں کی جس نئی سیاسی منزل کی شکل میں پیش کیا گیا، وہ تقسیم ہند اور پاکستان کا آزاد اسلامی ریاست کی حیثیت سے قیام تھا۔ تحریک پاکستان کے دو ناقابل تفریق و تنظیم) Indivisible and Inseperable) پہلو تھے۔ ایک سیاسی آزادی اور دوسرا اس آزادی کی بنیاد اور منزل اسلامی نظریہ اور تہذیب و ثقافت۔ یہی وجہ ہے کہ تصورِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کے مقاصد، مزاج اور شناخت کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل دستاویزات کا مطالعہ ضروری ہے:
l علامہ اقبال کا 1930ءکا خطبہ صدارت، l 23مارچ 1940ءکی قراردادِ لاہور ، l قائداعظم کا خطبہ صدارت، 7 اپریل 1947ءکی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان کے کنونشن کی قرار داد، حلف نامہ اور قائداعظم کی تقریر l 13مارچ 1949ءکو پہلی منتخب دستور ساز اسمبلی کی منظور کردہ قراردادِ مقاصد اور اس موقعے پر وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان اور تحریکِ پاکستان کے اکابر ارکانِ دستورساز اسمبلی کی تقاریر۔ (قراردادِ مقاصد تحریکِ پاکستان کی فکری جہت کا خلاصہ ہے، اور پاکستان کے دستور کی تمہید اور اس کا حصہ ہے۔)
اس پس منظر میں پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کے لیے چھے چیزیں ضروری ہیں:
-1 پاکستان کے تصور اور اس کی اصل منزل کا صحیح اور مکمل شعور۔ یہ وژن اور اس کے باب میں مکمل شفافیت (clarity)اور یکسوئی اوّلین ضرورت ہے۔ اسی سے ہماری منزل اور اس تک پہنچنے کے راستے کا تعین ہو سکتا ہے۔ یہ ہماری شناخت ہے اور اسی شناخت کے تحفظ اور ترقی کے لیے آزادی کی جدوجہد کی گئی اور پھر آزادی حاصل کی گئی۔
-2 آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے علاقے ( Territory) کا حصول ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ آزاد قوم اور آزاد علاقہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ملکی حدود کی حفاظت اور دفاع قومی سلامتی کی پہلی ضرورت ہے۔ دفاعِ وطن اور دفاعِ نظریہ، شخصیت اور پہچان ساتھ ساتھ واقع ہوتے ہیں۔ اس کے لیے عسکری قوت کے ساتھ سیاسی، معاشی، مادی اور اخلاقی قوت بھی مقابلے کی قوت کی حیثیت سے ضروری ہے۔ اس میں ضُعف ، ملکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بنتا ہے۔
-3 تیسری ضرورت اس وژن اور قومی سلامتی اور مفادات کا تحفظ و ترقی ہے، زندگی کے تمام شعبوں کے لیے صحیح پالیسیوں کا تعین ، انتہادرجے کی شفافیت کے ساتھ پالیسی سازی اور ان پر عمل کرنے کا اہتمام۔
-4 ان مقاصد کو حاصل کرنے اور پالیسیوں کی موثر تنفیذکے لیے تمام ضروری اداروں کا قیام، استحکام، اصلاح اور ترقی۔ دستور اور قانون کی حکمرانی ہی کے ذریعے اداروں کی بالادستی اور حقوق وفرائض کی بجاآوری ممکن ہے۔
-5 ان مقاصد کے حصول کے لیے اساسی ضرورت ہر سطح پر اور ہرشعبے کے لیے مردانِ کار کی تیاری ہے۔ تعلیم اس کی کنجی ہے۔ پوری آبادی کی اخلاقی، علمی اور صلاحیت کار کی ترقی کے ذریعے ہی کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے۔
-5 آخری فیصلہ کن ضرورت ہے: صحیح قیادت کا انتخاب، مشاورت کے موثر نظام کا قیام، احتساب اور جواب دہی کا ہر سطح پر اہتمام۔
یہ چھے چیزیں کسی بھی ملک اور قوم کی آزادی و خودمختاری اور ترقی و استحکام کی ضامن ہیں۔ ان سب کے بارے میں غفلت، کمزوری، فکری انتشار، تضادات اور عملی کوتاہیاں ہی پاکستان کے سارے مسائل کی جڑ ہیں۔ جس حد تک ان کا پاس و لحاظ کیا جائے گا ہماری آزادی اور خودمختاری برقرار رہ سکے گی۔ بلاشبہہ ان میں سے بعض پہلوﺅں پر توجہ کی گئی ہے، جس کی وجہ سے خطرات اور کمیوں، کوتاہیوں کے باوجود ہم اپنا وجود برقرار رکھ سکے ہیں اور کسی حد تک ترقی بھی حاصل کر سکے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38