چند روز قبل میری ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی میں نے ان سے قیام پاکستان کے بارے میں پوچھا تو وہ گویا ہوئے۔ میرا نام علی حسن ہے مگر مجھے لوگ سیٹھ علی حسن کہتے ہیں۔ یہاں لاہور میں میں اپنے بچّوں کے ساتھ بہت ہی خوشحال زندگی گزار رہا ہوں۔ لیکن میری زندگی کے سفر کا آغاز امرتسر سے ہوا تھا جو لاہور پہنچ کر ختم ہوا۔ میں اختصار سے کام لیتے ہوئے اپنی کہانی سناتا ہوں۔ میں امرتسر کے ایک گائوں میں پیدا ہوا میرا سارا خاندان ہمیشہ سے یہیں آباد تھا۔ مگر میرے ایک ماموں علی گڑھ میں رہتے تھے۔ جو علی گڑھ مدرسے میں معلّم تھے۔ والد صاحب کا انتقال ہو چکا تھا۔ ہم چار بہن بھائی تھے میں سب سے چھوٹا تھا۔ میری عمر اس وقت آٹھ نو سال تھی۔ جب میں اور میرا ہندو دوست رام داس اکٹھّے کھیلا کرتے تھے۔ میری ماں کی خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر شہر میں کلرک لگ جائوں اس دور میں کلرک کو بھی شہنشاہ سمجھتاجاتا تھا۔ چنانچہ 1929میں میرے ماموں گائوں میں آئے تو اماں نے مجھے انکے ساتھ علی گڑھ بھیج دیا۔ ہائی سکول میں داخل کروادیا۔علی گڑھ میں مجھے ایک چیز بڑی عجیب لگی وہاں ہندوئوں اور مسلمانوں کے تعلقات کشیدہ تھے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکی وجہ یعنی کہ دو قومی نظریہ میری سمجھ میں آچکا تھا چند سال بعد میں اپنے ماموں کے ساتھ واپس اپنے گائوں آیا تو کیا دیکھا وہاں پر بھی حالات کشید ہ ہیں اس بات کا احساس مجھے اس وقت بہت شدّت سے ہوا جب مجھے میرے بچپن کے پیارے دوست نے علی حسن مسلا کہ کرپکارا۔ میں اپنی تعلیم مکمل کر چکا تھا اور اپنے ماموں جو کہ مسلم لیگ جماعت کے بہت بڑے کارکن تھے انکے ساتھ مل کر جلسے جلوس میں جانے لگا۔ یہ وہ دن تھے جب پورے ہندوستان میں تحریک پاکستان زوروں پر تھی اور حالات سنگین ہوتے جا رہے تھے۔ مسلمان اپنی عزتیں چھپا کر گھروں میں چھپے بیٹھے تھے ہر طرف قتل وغارت کا بازار گرم تھا۔ اماں نے ہمیں بلوائیوں کے ڈر سے باہر جانے سے منع کر دیا تھا لیکن جب اچانک گائو ں سے درد ناک چیخوں کی آواز سنائی دی تواماں کے روکنے کے باوجود میں اور میرا بڑا بھائی باہر کی طرف بھاگے ہماری آنکھوں کے سامنے ایک درد ناک منظر تھا۔ہندو اور سکھ مسلمان لڑکیوں اور عورتوں کو بالوں سے گھسیٹ کر باہر لا رہے تھے۔ ایک مسلمان لڑکی کو ان درندوں کے شکنجے سے چھڑانے کیلئے میں جیسے ہی آگے بڑھا تو ایک سنگین کی تیز نوک میرا بازو چیر گئی۔میرا بھائی مجھے بچانے کے لیے جب آگے بڑھا تو ایک سکھ نے اسکے سینے میں چھرا گھونپ دیا اور میرا بھائی میرے سامنے تڑپ تڑپ کر شہید ہو گیا۔ میں تایا کہ گھر کی طرف بھا گا تو قیامت خیز منظر میری نگاہوں کے سامنے تھے۔ میرے تایا کہ ٹکڑے ٹکڑے ہوئے پڑے تھے۔ انکے تینوں بیٹوںکی گردنیں جسم سے جدا تھیں ، انکا گھر شعلوں کی لپیٹ میں تھا۔گائوں کے بچے کھچے مسلمان اپنے بچوں کو لے کر اسٹیشن کی طرف بھاگ رہے تھے۔ میں بھی ان میں شامل ہوگیا جیسے ہی ٹرین آئی لوگ اس میں سوار ہو گئے۔ سِکھوں نے راستے میںدو بار ٹرین رکوا کر قتل و غارت کا بازار گرم کیا ۔ایک خنجر میرے بازو پر لگا اور میں بیہوش ہو گیا۔ جب ٹرین لاہور آکر رکی ۔ مجھے بھی کچھ ہوش آیا دوسرے لوگوں کیساتھ میں بھی مہاجر کیمپ میں پہنچ گیا۔ صحت یاب ہونے کے بعد میں ایک دکان پر کام کرنے لگا۔ مجھے ایک ادارے نے اچھی ملازمت دیدی اور یہیں سے میری کامیا بیوں کا دور شروع ہوا۔ مگر مجھے یہ سب کچھ ادھورا محسوس ہوتا ہے اور محرومیا ں آج تک ختم نہیں ہو سکیں۔قارئین میرے سامنے سبز اور سفید ہلالی پرچم لہرا رہا تھا۔ اچانک ٹی وی پر نغمہ گونجا اور اس کے بول مجھے اپنے دِل کی گہرائیوں سے نکلتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024