بعد از واقعہ تاویلیں چاہے جتنی بھی گھڑ لیں حقیقت یہی رہے گی کہ سپیکر ایاز صادق، نواز حکومت کے وزراء اور قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے باہم مل کر ایک ٹھوس پیغام دے دیا ہے۔ ایم کیو ایم سے ہر حال میں وابستہ رہنے کا تہیہ کئے وہ لوگ جنہیں جدید سیاست کی زبان میں Core Constituencyکہا جاتا ہے سمجھے ہیں تو بس اتنا کہ عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی پاکستانی سیاست کے انوکھے لاڈلے ہیں۔
اسمبلیوں سے پی ٹی آئی کے اراکین استعفیٰ دینے کے بعد 126دن تک قومی اسمبلی کے عین سامنے لگائے کنٹینر پر کھڑے ہوکر ’’اوئے سپیکر‘‘ کو یہ استعفیٰ منظور کرنے کی جرأت دکھانے کو للکارتے رہے۔ ان کی بڑھکوں کو کھوکھلا ثابت کرنے کی بجائے حکومت اور باقی اپوزیشن کی تمام جماعتیں باہم مل کر جرگے بٹھاتی رہیں۔ یہ جرگے عمران خان اور پی ٹی آئی کے اراکین کو اسمبلیوں میں واپس لینے کے ہر ممکن طریقے استعمال کرنے کو بے چین نظر آئے۔ بالآخر عمران خان کے اصرار پر سپریم کورٹ کا ایک کمیشن بنایا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی بھی الیکشن کے بارے میں لگائے دھاندلی کے الزامات کا یہ کمیشن بہت دن لگاکر جائزہ لیتا رہا۔
جب کمیشن بن گیا تب بھی عمران خان قومی اسمبلی میں تشریف نہ لائے۔ وہ کمیشن کی حتمی رپورٹ آنے تک کنٹینر پر ہی ٹکے رہنے کا ارادہ باندھے ہوئے تھے۔ شاید وہ اس فیصلے پر قائم رہتے ہوئے مزید کئی روز تک ’’اوئے نواز شریف‘‘ اور ان کی حکومت کو عذاب میں مبتلا رکھتے۔ مگر آرمی پبلک سکول میں دہشت گردی کی وحشیانہ واردات ہوگئی۔ اس واردات کے بعد دھرنے کی گھن گرج اور میلے ٹھیلے کو جاری رکھنا مناسب نہ دکھتا۔ پی ٹی آئی کے اراکین فاتحانہ مسکراہٹوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں واپس لوٹ آئے۔ خواجہ آصف نے مگر ’’کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے‘‘ کی صدا بلند کرتے ہوئے ماحول بگاڑ دیا۔
عمران خان خواجہ آصف کی اس صدا کے بعد سے قومی اسمبلی میں ’’درباری وزیر‘‘ کے موجودگی برداشت نہیں کرسکتے۔ ان کے اراکین تو ایوانِ زیریں میں جاتے ہیں مگر وہ خود اس ہال میں آنا کچھ زیادہ پسند نہیں کرتے۔ ان کے چاہنے والوں کا اب یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان کو درحقیقت ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے بھرے اس ایوان پر زیادہ غصہ اس لئے بھی آتا ہے کہ اس کا سپیکر ایاز صادق ہے۔
ایاز صادق عمران خان کے بچپن کے دوست ہیں۔ وہ سپیکر کی ’’اوقات‘‘ خوب جانتے ہیں۔ اصل غصہ مگر اس بات پر بھی ہے کہ لاہور کے ایک حلقے سے اسی ایاز صادق نے عمران خان کومئی 2013ء کے انتخابات میں شکست دی تھی۔ عمران خان اس جیت کو دل سے کبھی تسلیم کرہی نہیں سکتے۔ معاملہ الیکشن ٹربیونل تک لے گئے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ عدالت ایاز صادق کے انتخاب کو جعلی قرار دے گی۔ ایسا فیصلہ آنے کے بعد ہی وہ قومی اسمبلی جائیں گے۔ پی ٹی آئی کی خبریں دینے والے اس سوال کا جواب دینا گوارہ نہیں کرتے کہ اگر عدالت نے بھی ایاز صادق کی جیت کو درست قرار دے دیا تو ان کا کپتان کیا کرے گا۔
بدھ کی صبح ایم کیو ایم والوں نے اچانک اعلان کردیا کہ اپنے ’’قائد‘‘ کے حکم پر وہ سینٹ، قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی سے استعفیٰ دے رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس اس دن صبح سے جاری تھا۔ مگر ایم کیو ایم والے ایک بجے کے بعد ایک جلوس کی صورت باغیانہ نعرے لگاتے ہوئے پارلیمان کی طرف روانہ ہوئے۔
ان کی جانب سے استعفیٰ دینے کا اعلان کئی گھنٹے قبل ہوا تھا۔ ان کے اعلان اور پارلیمان کی طرف ایک جلوس کی صورت جانے کے درمیان کافی لمبا وقفہ تھا۔ حکومت یا ’’جمہوری پارلیمانی نظام‘‘ کو بچانے کی فکر میں ہمہ وقت مبتلا اپوزیشن کے کچھ لوگ اس دوران ایم کیوایم کے لوگوں سے رابطہ کرکے انہیں اپنے فیصلے پر نظرثانی کے لئے آمادہ کرنے کی کوششیں کرسکتے تھے۔ کسی نے تردد ہی نہ کیا۔
بالآخر فاروق ستار اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قومی اسمبلی کے ایوان میں نعرے لگاتے تشریف لے آئے اور اپنے استعفوں کی وجوہات بیان کرنے کو ایک طولانی تقریر فرمانا شروع ہوگئے۔ ان کی تقریر کے بعد نواز حکومت کا چودھری نثار علی خان جیسا کوئی تگڑا وزیر کھڑے ہوکر ایم کیو ایم کے تحفظات بات چیت کے ذریعے ختم نہ سہی کم کرنے کے وعدے ضرور کرسکتا تھا۔ حکومتی صفوں سے کوئی نہ اُٹھا نہ ہی اپوزیشن کا کوئی معتبر رہ نما ’’جمہوریت کی خاطر‘‘داد فریاد کرنے پر آمادہ ہوا۔
فاروق ستار نے اپنی تقریر کے دوران بارہا کہا کہ اپنی تقریر ختم ہونے کے فوری بعد وہ اپنے ساتھیوں سمیت سپیکر ایاز صادق کے چیمبر میں جاکر اپنے استعفیٰ پیش کردیں گے۔ سپیکر صاحب اگر ایم کیو ایم کو روکنا چاہ رہے ہوتے تو فاروق ستار کی تقریر کے دوران کسی بہانے کرسی صدارت چھوڑ کر ایوان سے غائب ہوسکتے تھے۔ انہوں نے گوارا نہ کیا۔ اپنے چیمبر میں بلکہ اطمینان سے بیٹھے ایم کیو ایم والوں کا انتظار کرتے پائے گئے۔ وہ آگئے تو فرداََ فرداََ انہوں نے استعفوں کی تصدیق بھی حاصل کرلی۔
1985ء سے قومی اسمبلی کا ہر اجلاس بہت تن دہی سے رپورٹ کرتا رہا ہوں۔ اس رپورٹنگ کی وجہ سے تھوڑا بہت آئین بھی سمجھنا ہوتا ہے اور قومی اسمبلی کی رکنیت اور اس کی کارروائی سے متعلقہ قواعد تو ازبر ہونا اشد ضروری۔ میں آئین اور اسمبلی کی رکنیت سے متعلق قواعد کو جتنا سمجھتا ہوں اس کے مطابق بدھ کی سہ پہر سپیکر کے چیمبر سے نکلنے کے بعد فاروق ستار اور ان کے ساتھی اب قومی اسمبلی کے رکن نہیں رہے۔
یہ بنیادی بات ایم کیو ایم کی Core Constituency بھی فوراََ سمجھ گئی۔ اس نکتے کو سمجھنے کے بعد انہیں یاد آگیا وہ اہتمام بھی جو عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی کو منتخب ایوانوں میں واپس لانے کے لئے کئی دنوں تک رچایا گیا۔ اپنی ہذیانی کیفیتوں میں انہیں یہ بات بھی کہنا پڑی کہ صرف فرزندِ زمین (Sons of Soil) ہی ’’انوکھے لاڈلوں‘‘ جیسے نخرے دکھاسکتے ہیں۔ ’’مہاجروں‘‘ کو یہ سہولت میسر نہیں۔
میرے قاری اور ناظر اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ میں ایم کیو ایم کے شدید ترین ناقدین میں سے ایک ہوں۔ اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ 14اگست سے دو روز قبل ایم کیو ایم والوں کو یہ پیغام ہرگز نہیں جانا چاہیے تھا۔ تیر کمان سے مگر نکل چکا ہے۔
سیاست کے بے رحم کھیل میں تاثر Perception کئی حوالوں سے ٹھوس حقیقتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم والے اپنی آفتوں بھری اس گھڑی میں بالکل اکیلے نظر آرہے ہیں۔ اپنی تنہائی سے گھبرا کر وہ الطاف حسین کی ’’پناہ‘‘ میں دبکے کیوں نہ بیٹھے رہیں۔ کاش کسی اور جانب سے بھی ان کے لئے دستِ شفقت اٹھے ہوتے۔ یہ شفقت میسر نہ ہوئی تو ’’مائنس الطاف‘‘ والا فارمولہ ہرگز نہیں چل پائے گا۔