مسلم لیگ 1906ء میں قائم ہوئی جس کا مقصد مسلمانوں کے سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق کا تحفظ تھا۔ 1937ء کے انتخابات میں کانگرس کو فتح ہوئی اس نے ہندوستان کے تمام صوبوں میں حکومتیں قائم کرلیں۔ ہندوئوں کا مسلمانوں کیخلاف عملی تعصب کھل کرسامنے آگیا۔ مسلمان اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق محفوظ نہیں ہوسکتے۔ قائداعظم نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں کا مقدمہ کامیابی سے لڑا۔ 23مارچ 1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور منظور ہوئی جسے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ عالمی اور کوریا کی جنگوں میں مسلمانوں نے امریکہ اور برطانیہ کا ساتھ دیا جبکہ ہندو الگ تھلگ رہے۔ اس طرح برطانیہ کا مسلمانوں کے بارے میں نرم گوشہ پیداہوگیا۔ 1945-46ء کے انتخابات میں مسلمانوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دئیے اور مسلم لیگ نے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ 14اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ قائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور لیاقت علی خان پہلے وزیراعظم بنے۔ دونوں لیڈر اپنی زندگی میں پاکستان کو آئین نہ دے سکے جس نے آزاد ریاست کی سمت متعین کرنا تھی۔ پاکستان کے پہلے دس سال (1947-58) محلاتی سازشوں کے سال ثابت ہوئے جن کے دوران سات وزیراعظم بنے۔ دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کی۔ سول سرونٹس اور جرنیل طاقتور ہوگئے۔ چوہدری غلام محمد اقتدار کا مرکز رہے۔ 1956ء کا آئین تشکیل پایا۔ امریکہ کا اثرورسوخ اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ اس نے انتخابات میں امریکہ مخالف سیاسی رہنمائوں کی کامیابی کے خوف سے سکندر مرزا اور جنرل ایوب کے ہاتھوں مارشل لاء نافذ کرادیا اور اس طرح مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان سیاسی و جمہوری رشتہ ہی ٹوٹ گیا۔
جنرل ایوب خان کی آمریت کے دس سالوں (1958-68) میں صنعتی ترقی ہوئی۔ تربیلا اور منگلا ڈیم تعمیر ہوئے البتہ جنرل ایوب کا صدارتی آئین 1962ء پاکستان کو قائداعظم کے نظریات اور علامہ اقبال کے تصورات کیمطابق جدید اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست نہ بناسکا۔ قومی دولت اور وسائل پر بائیس خاندان قابض ہوگئے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ نے پاکستان کی معاشی ترقی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اگر جنرل ایوب صدارتی انتخاب میں دھاندلی دھونس اور دھن سے کام نہ لیتے اور مادر ملت فاطمہ جناح کو کامیاب ہونے دیا جاتا تو پاکستان سنبھل جاتا۔ جنرل ایوب خان کو دل کا عارضہ لاحق ہوگیا۔ امور مملکت پر انکی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔ سیاستدانوں نے ایوبی آمریت کیخلاف زبردست عوامی تحریک چلائی۔ آرمی چیف جنرل یحییٰ خان نے موقع پاتے ہی اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ البتہ سیاستدانوں کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کا اعلان کردیا۔ مغربی پاکستان کے سرمایہ داروں، جاگیرداروں، بیوروکریٹس اور جرنیلوں نے مشرقی پاکستان کو کالونی سمجھ کر استحصال کیا۔ احساس محرومی کی بناء پر چھ نکات وجود میں آئے۔ 1970ء کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پی پی پی نے اکثریت حاصل کرلی۔ جنرل یحییٰ خان نے اقتدار چھوڑنے سے انکار کیا۔ بھٹو اور مجیب سیاسی مفاہمت نہ کرپائے۔ سیاسی مسئلے کا فوجی حل نکالنے کی کوشش کی گئی۔ بھارت نے صورتحال سے فائدہ اُٹھایا اور پاکستان کو دولخت کردیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان کا اقتدار سنبھال لیا۔ 1973ء کا متفقہ آئین، ایٹمی صلاحیت کا حصول اور عوامی شعور انکے یادگارکارنامے ہیں۔ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد پی این اے کی تحریک زور پکڑ گئی۔ امریکہ کو بھٹو کو ’’عبرت ناک مثال‘‘بنانے کا موقع مل گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کرکے مارشل لاء نافذ کردیا۔ بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا گیا۔ سیاسی کارکنوں کو کوڑے مارے گئے۔ روس نے افغانستان پر حملہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے روس کیخلاف جہاد شروع کردیا۔ اسی ہزار جہادیوں کو اسلحہ اور تربیت دی گئی۔ روس کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ امریکہ نے کامیابی کے بعد جنرل ضیاء الحق کو تنہا چھوڑ دیا اور وہ عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف (1988-99)کے دوران دو دو بار اقتدار میں رہے۔ یہ دور محاذ آرائی اور کرپشن کا دور تھا۔ بے نظیر نے افواج پاکستان کو ایٹمی میزائیل دئیے اور خواتین و نوجوانوں کو مقتدر بنانے کی کوشش کی۔ نواز شریف نے ایٹمی دھماکہ کیا اور موٹر ویز تعمیر کیے۔ جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں میاں نواز شریف کو حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ انکے (1999-08)دور میں سرمایہ کاری ہوئی جس کی صنعتی اور زرعی بنیاد نہیں تھی۔ جنرل مشرف نے نائن الیون کے بعد ٹیلی فون پر امریکہ کی شرطیں تسلیم کرکے پاکستان کو جنگ میں جھونک دیا جس میں اب تک اسی ہزار کے لگ بھگ معصوم اور بے گناہ پاکستانی شہید ہوچکے ہیں۔ اس دور میں بے نظیر بھٹو اور اکبر بگٹی شہید ہوئے۔ 2008ء میں ایک بار پھر جمہوری دور شروع ہوا 2008-15ء کے دوران پہلے آصف علی زرداری اور اب میاں نواز شریف اقتدار میں ہیں۔ اسے مفاہمت کا دور کہا جاتا ہے گویا مل کر اقتدار انجوائے کرو۔ آج بھی سارا زور موٹرویز اور میٹروز پر ہے۔ تاریخ میں پہلی بار فوج اور سیاستدان باہم اشتراک سے کام کررہے ہیں۔ جو خوشگوار تجربہ ہے۔ اس جمہوری دور میں عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف نے سیاسی اہمیت حاصل کی ہے۔ سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ تحریک انصاف اگلے انتخابات تک پی پی پی کی سیاست کو محدود کرکے پہلی یا دوسری وفاقی سیاسی جماعت بن جائیگی۔ پاکستان نے 68 سالوں کے دوران کئی حوالوں سے ترقی بھی کی ہے۔ پاکستان کی فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ صنعتوں میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں کی تعداد آج بہت زیادہ ہے۔ لاکھوں پاکستانی بیرون ملکوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور پاکستان کو زرمبادلہ بھیج رہے ہیں۔ میڈیا بڑا طاقتور ہوچکا ہے اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
1947ء میں پاکستانی منظم قوم تھے۔ آج قوم منتشر اور منقسم ہوچکی ہے۔ قیادت اہل، دیانت دار اور پرعزم تھی۔ آج کی قیادت زوال پذیر ہے ابھی تک مستحکم جمہوری سیاسی نظام منصفانہ معیشت اور عدل اور انصاف کا قابل رشک نظام پاکستان کے عوام کو نہیں دیا جاسکا۔ سیاسی سفر کا کوئی دور ایسا نہیں جسے گڈ گورنینس اور قانون کی حکمرانی کا دور کہا جاسکے۔ پاکستان کے حکمران مختلف پس منظر اور شعبوں سے تعلق رکھتے تھے مگر ان میں سے ایک بھی قائداعظم جیسا کردار پیش نہ کرسکا اور نہ ہی پاکستان کو جدید اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنا یا جاسکا۔ پاکستان کے سیاسی سفر کے دوران عوام کا کردار صرف تحریکوں اور انتخابات میں نظر آتا ہے۔ ان کو مقامی حکومتوں میں شریک نہ کیا گیا۔ کالم کا اختتام دو نامور مبصرین کے اقتباسات سے کرتا ہوں۔
’’اس افسوسناک اور وسیع ڈرامے کے بیچ میں منتخب اور غیر منتخب حکومتوں دونوں میں سے ایک مرکزی نکتہ نظر انداز ہوا ہے اور وہ ہے پاکستان کے عوام کی خواہشات۔ اگر اب بھی اُمید کی کوئی وجہ باقی ہے تو اس کا انحصار پُرجوش، محنتی سادہ مگر تخلیقی مردوزن پر ہے جو اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ یقینی طور پر ایک دن ان (عوام) کی خواہش غلبہ حاصل کریگی۔‘‘ [روئیداد خان: British Papersصفحہ xxvii] معروف امریکی سکالر کریگ بیکسٹر(Craig Baxter) کے خیال میں پاکستان ان پانچ شعبوں میں ناکام ہوا ہے۔ جو ایک کامیاب ریاست کیلئے انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔ (1) ریاست کی تشکیل، (2)قوم کی تعمیر، (3)معاشی نظام کی تعمیر، (4)عوام کی شراکت، (5)تقسیم کا نظام۔ [Pakistan Founders Aspirations] پاکستان کے سیاسی سفر پر غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا