میں نے اپنی زندگی کا طویل حصہ دیارِ غیر میں گزارا۔ یورپی ممالک میں آج بھی مجھے کاروباری سلسلے میں جانا پڑتاہے۔ امریکہ،برطانیہ، کینیڈا میں کئی کئی ماہ گزارنے کا موقع ملا۔ اگر میں یہ کہوں کہ آدھی دنیا دیکھ چکا ہوں تو اس میں مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔ میں ایک کاروباری شخص اور سیاستدان ہونے کے ساتھ تاریخ کا طالب علم بھی ہوں۔ دوسرے ممالک جا کر ان کی تہذیب و تمدن، سیاست، ترقی و خوشحالی کا جائزہ لیتا رہتا ہوں۔ بعض ممالک ترقی یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی ہیں۔ ایسے بھی ہیں جن کو قدرت نے حسن سے نہیں نوازا لیکن اپنی کوشش اور کاوش کے ذریعے خود کو حسین بنا لیا۔ میں نے جتنے بھی قدرتی یا مصنوعی طور پر خوبصورت بنائے گئے ممالک دیکھے ان میں قدرتی حسن کے حوالے سے ایک بھی پاکستان کا نادرالوجودنہیں ہے۔ پاکستان وہ ہیراہے جس کو کبھی تراشنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ مٹی میں رولا گیا موتی ہے۔ اس کی تراش خراش کر دی جائے اور اس کا وجود مکمل کر دیا جائے تو پاکستان کی سیاحتی صنعت اتنی ترقی کرے کہ ہمارے تمام معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کا وجود کشمیر کے بغیر نامکمل ہے۔ کشمیر کو دنیا میں جنت نظیر کہا جاتا ہے۔ دنیا میں کہیں ہمالیہ نہیں ہے۔ ہمیں احساس اور قدر ہی نہیں ہے۔ پاکستان دریاﺅں، نہروں، جھیلوں، چشموں اور آبشاروں کی سرزمین ہے۔ یہ وہ حسن ہے جو ہماری کھلی آنکھیں دیکھتی ہیں۔ زمین کے اندر چھپے معدنیات، ہیرے و جواہرات ،سونا چاندی، سنگ سرخ اور سنگ سبز کے خزانے عیاں ہونے کو بے قرار ہیں۔ ہم سے تو پوری طرح تیل اور گیس ہی نہیں نکل پائی۔ پوری دنیا میں پاکستان میں موجود برف پوش وادیاں، سرسبز پہاڑ کم کم ہی ہیں۔ ہم اپنے وسائل سے استفادہ کریں تو غیروں کی محتاجی پاﺅں کی دھول بن سکتی ہے۔
آج اگر ہم بحرانوں کا شکار ہیں تو اس میں عظیم تر ریاست کا قصور نہیں اس کو چلانے والوں کی پالیسیاں ہیں جو قومی و ملکی مفادات کو مدنظر رکھ کر تشکیل دینے کے بجائے بوجوہ دیگر عوامل کے پیش نظر بنائی جاتی ہیں۔ میں پاکستان کے حال سے ڈسٹرب ضرور ہوں لیکن اس کے مستقبل سے کبھی مایوس نہیں ہوا۔ میں آج مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ،لاقانونیت اور بہت سے دوسرے بحرانوں سے دوچار مایوس پاکستانیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ دوسرے ممالک میں جانے والے پاکستانیوں کو وہاں بڑی سہولتیں ملتی ہیں۔وہاں قانون اور مساوات کا دور دورہ ہے۔ ٹھنڈی ہوائیں ہیں۔ بڑی خوبصورتی ہے۔ زندگی ایک قاعدے اور ضابطے کے تحت رواں دواں ہے۔ بعض پاکستانیوں کو وہاں کی شہریت بھی میسر ہے لیکن جو آزادی اپنے وطن میں ہے وہ کہیں نہیں۔ معمولی جرم پر وہ کان سے پکڑکر ڈی پورٹ کر دیتے ہیں۔ خواہ اس کی دہری شہریت ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کو پاکستان سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ آپ کی شہریت کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ ایسی آزادی اور خوبصورتی کیا آپ کو کسی دوسرے ملک نصیب ہو سکتی ہے۔یہ میرے آزاد اور پیارے پاکستان کی بدولت ہے۔
ہمیں آزادی کی نعمت نہ ملتی تو ہم کہاں ہوئے اور کیسے ہوئے؟ اس کا اندازہ بھارت میں مقیم اہل ایمان کی حالتِ زار دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ سیکولر انڈیا محض نام کا سیکولر ہے۔اصل میں وہاں ہندو انتہا پسندی کا عروج ہے۔پاکستان میں گھروں میں انڈین گانے چلتے ہیں۔ دکانوں، ہوٹلوں، حتی کہ ریڑھی والے بھی انڈین گانے اور ناچ سنتے اور دیکھتے ہیں۔ بھارتی اداکاروں کی تصویریں ہر سو لگی نظر آتی ہیں۔ بھارت میں ایسا کوئی مسلمان نہیں کر سکتا ۔اپنی دکان، ہوٹل، ریسٹورنٹ یا کاروبار کی جگہ پر پاکستانی گانے چلا سکتا ہے نہ پاکستانی کھلاڑیوں اور فنکاروں کی تصاویر آویزاں کر سکتا ہے۔جس نے ایسا کیا اس کا کاروبار ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔پاکستان سیکولر نہیں اسلامی جمہوری ریاست ہے۔لیکن اس میں اقلیتوں کو بالکل اسی طرح کے حقوق حاصل ہیں جس کا اظہار قائداعظم محمد علی جناح نے کیا تھا۔ آج پاکستان کو عظیم تر بنانے کے لیے قائداعظم جیسے لیڈر کی ضرورت ہے۔ قائداعظم ثانی جب بھی پاکستان کو مل گیاایٹمی پاکستان دنیا کے نقشے پر دمکتے ہوئے ستارے کی مانندچمکے گا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024