مشہور فرانسیسی مفکر روسو نے کہا تھا ’’ انسان آزاد پیدا ہوا تھا لیکن ہر طرف وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے‘‘ یہ زنجیریں جبرو استبداد کی ہیں۔ یہ زنجیریں ظلم اور زیادتی کی ہیں۔ ناروا پابندیوں کی ہیں تاریخ گواہ ہے کہ آدمی ازل سے ہی صید زبونِ شہر یاری رہا ہے۔ انسان کی انسان کو غلام بنانے کی حرص اور ہوس نے کبھی دم نہیں توڑا۔ بستیاں تاراج ہوئیں۔ خاک اور خون کی ہولیاں کھیلی گئیں بے گناہ انسان کیڑوں مکوڑوں کی طرح کچلے گئے۔ چشم تاریخ نے کھوپڑیوں کے مینار بنتے دیکھے۔ حضرت انسان نے اپنے ہی بھائی بندوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے۔ الغرض آدمی کا شیطان آدمی رہا ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کی بدقسمتی یہ تھی کہ ان کا پالا دو شیطانوں سے پڑا تھا۔ ایک وہ جو اپنی اقلیم کے ڈوبتے ہوئے سورج کو بڑی حیرت اور حسرت سے تک رہا تھا اور دوسرا صدیوں کا حساب چکانے کے لئے سنہری سازشوں کے جال بن رہا تھا۔ دراصل جب سلاطین اپنے آپ کو مْشت غبار سمجھنے لگیں اور حاکمانِ وقت ایں دفتر بے معنی غرق مے ناب اولیٰ کا ورد کرنے لگیں تو ذلت اور رسوائی ان قوموں کا مقدر بن جاتی ہے۔ انگریز بوجوہ مسلمانوں سے مخاصمت رکھتا تھا۔ ایک تو اختیار اس نے ان سے ہتھایا تھا پھر 1857ء کی جنگ آزادی بھی بنیادی طور پر انہوں نے لڑی تھی۔ اسلام سے اسے خدا واسطے کا بیر تھا۔ صلیبی جنگوں کی صدائے بازگشت اسے چار سو سنائی دیتی تھی۔ اس اعتبار سے ہندو اس کا قدرتی حلیف تھا۔ مسلمانوں کو عمداً اہم عہدوں سے محروم رکھا گیا۔ ہندوؤں کا معاملہ قدرے مختلف تھا۔ ایک ہزار سال کی غلامی کا بدلہ چکانے کا نادر موقع ان کے ہاتھ آیا تھا۔ ہرچند کہ اس طویل عرصہ میں مسلمانوں کا سلوک مربیانہ رہا۔ مغل تو ان کو رام کرتے کرتے حد سے آگے بڑھ گئے۔ نیم خواندہ ’’مغل اعظم‘‘ اکبر نہ صرف راجپوت جودھا بائی کو اپنے عقد میں لے آیا بلکہ ایک نیا مذہب دین الٰہی رائج کرنے کی بھی نیم دلانہ کوشش کی۔ ہندوستان میں اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا۔ تالیف قلوب اولیائے دین کی بدولت ہوئی۔ مجدد الف ثانی سید علی ہمدان، نظام الدین اولیائ، خواجہ اجمیر، سید علی ہجویری اور دیگران نے اپنے اخلاقِ حمیدہ سے خلقِ خدا کو گرویدہ کیا۔ باایں ہم ہندو ذہن نہ بدلا۔ وہ اس تمام عرصے میں مسلمانوں کو ملیچھ سمجھتے رہے۔ ان سے ہاتھ تک ملانے کے روادار نہ تھے کیونکہ اس صورت میں دھرم کے بھرشٹ ہونے کا اندیشہ لاحق رہتا۔ انگریز راج کو بھی انہوں نے بھگوان کی کرپا سمجھ کر قبول کیا۔ انہیں بخوبی علم تھا کہ انگریز تو ایک نہ ایک دن ہندوستان چھوڑ کر چلا جائے گا لیکن مسلمانوں کا جینا مرنا اسی دھرتی پر ہوگا۔ عالمی جنگ نے برطانیہ کو ہلا کر ر کھ دیا۔ اسے احساس ہوگیا کہ اس کی ایمپائر کا وہ سورج جو کبھی غروب نہ ہوتا تھا اب ڈھلنے والا ہے اس کی طاقت کا طلسم ٹوٹ چکا تھا۔ نوشتہ دیوار پڑھتے ہی آزادی کی تحریکوں نے زور پکڑا۔ ابتدائی مزاحمت کے بعد برطانیہ بھی ہندوستان چھوڑنے پر ذہنی طور پر تیار ہوگیا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے مقدور بھر کوشش کی اگر انہیں اپنی حفاظت حاصل ہو جائے تو وہ پرامن بقائے باہمی کے اصول کو اپناتے ہوئے ہندوستان میں ایک ساتھ رہنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ سوچ علامہ اقبال کی شاعری کے پہلے دور میں جگہ جگہ جھلکتی ہے نیا شوالہ اور دیگر نظمیں لکھی گئیں۔
پتھر کی مورتی میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
لیکن یہ خیال خام تھا۔ ہندو مسلمانوں کو عملاً غلام بنانے پر تلے ہوئے تھے اور مغربی طرز کی جمہوریت کے حوالے دیتے تھے۔ وہ دراصل They Wanted to Subject the Muslims to the Tyrrany of the Majority (عددی جبر کے ذریعے مسلمانوں کو مطیع کرنا چاہتے تھے) مسلمانوں کو علامہ اقبال اور محمد علی جناح کی سربراہی میں ہندو ذہن پڑھنے اور اس کی ذہنیت کو سمجھنے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ انہیں احساس ہوا کہ ہندو ازم اور اسلام دو ایسے نظام زندگی ہیں جو ریل کی پٹڑیوں کی طرح کہیں بھی آپس میں نہیں ملتے۔ ان کا رہن سہن عبادات کلچر عادات و اطوار یکسر مختلف ہیں۔ وہ بتوں کو پوجتے ہیں۔ مسلمان خدائے واحد کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں۔ وہ گائے کو ماتا سمجھتے ہیں مسلمان اس کا حلال گوشت کھاتے ہیں۔ ان کے مندروں میں کوئی شودر نہیں گھس سکتا۔ بھگت گپتا کا اشکوک سننے والوں کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جاتا تھا اور ادھر… ایک دن توتلی زبان میں اذان کی آواز نہیں آتی تو رسالت مآب پوچھتے ہیں فاطمہ بیٹی کیا بات ہے آج بلال نے اذان نہیں دی؟ کون بلال اوہ حبشی زادہ حقیر
فطرت تھی جس کی نور نبوت سے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سکندر رومی کو تو کوئی نہیں جانتا ۔ حبشی کو دوام حاصل ہوگیا ہے۔ یہ دنیا کا واحد مذہب ہے جو محمود ایاز کو ایک صف میں لا کھڑا کر تا ہے۔ شاہ وگدا میں تمیز نہیں برتتا۔ خالق کائنات کے نزدیک افضل وہ ہے جو پرہیزگار اور متقی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں نے الگ ملک کا مطالبہ کیا تو مخالفت کا طوفان کھڑا ہوگیا۔ ہر طرف سے طنزو تشنیع کے تیر چلنا شروع ہوگئے۔ بڑی پھبتیاں کسی گئیں۔ اسے مجذوب کی بڑ اور دیوانے کا خواب کہا گیا۔ پنڈت زاہن ملا نے تو علامہ کی ہجو تک لکھ ڈالی۔
ہندی ہونے پر ناز جسے کل تک تھا حجازی بن بیٹھا
اپنی محفل کا رند پرانا آج غازی بن بیٹھا
اس یلغار کا علامہ کے پاس بڑا مؤثر استدلال تھا
جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا
اس کا مقام اور ہے، اس کا نظام اور ہے
غیر تو غیر اپنے بھی کسی غلط فہمی یا خوش فہمی کی وجہ سے مخالفت کرنے لگے۔ ان میں پیش پیش مولانا آزاد اور حسین احمد مدنی تھے۔ ویسے تو اور بھی کئی زعماء تھے لیکن جگہ کی تنگی کی وجہ سے ان دو صاحبان کا ذکر مقصود ہے حسین احمد مدنی جید عالم دین تھے اور ان کا تعلق دیو بند سکول سے تھا۔ انہوں نے وطنیت پر ایک ضخیم کتاب لکھ ڈالی۔ جواباً علامہ نے کہا
قلندر جْزو دو حرفِ لاالٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
قیہہ شہر قاروں ہے لْغت ہائے حجازی کا
برصغیر کے مسلمانوں کی بدقسمتی یہ تھی کہ ان کا پالا دو شیطانوں سے پڑا تھا۔ ایک وہ جو اپنی اقلیم کے ڈوبتے ہوئے سورج کو بڑی حیرت اور حسرت سے تک رہا تھا اور دوسرا صدیوں کا حساب چکانے کے لئے سنہری سازشوں کے جال بن رہا تھا۔ دراصل جب سلاطین اپنے آپ کو مْشت غبار سمجھنے لگیں اور حاکمانِ وقت ایں دفتر بے معنی غرق مے ناب اولیٰ کا ورد کرنے لگیں تو ذلت اور رسوائی ان قوموں کا مقدر بن جاتی ہے۔ انگریز بوجوہ مسلمانوں سے مخاصمت رکھتا تھا۔ ایک تو اختیار اس نے ان سے ہتھایا تھا پھر 1857ء کی جنگ آزادی بھی بنیادی طور پر انہوں نے لڑی تھی۔ اسلام سے اسے خدا واسطے کا بیر تھا۔ صلیبی جنگوں کی صدائے بازگشت اسے چار سو سنائی دیتی تھی۔ اس اعتبار سے ہندو اس کا قدرتی حلیف تھا۔ مسلمانوں کو عمداً اہم عہدوں سے محروم رکھا گیا۔ ہندوؤں کا معاملہ قدرے مختلف تھا۔ ایک ہزار سال کی غلامی کا بدلہ چکانے کا نادر موقع ان کے ہاتھ آیا تھا۔ ہرچند کہ اس طویل عرصہ میں مسلمانوں کا سلوک مربیانہ رہا۔ مغل تو ان کو رام کرتے کرتے حد سے آگے بڑھ گئے۔ نیم خواندہ ’’مغل اعظم‘‘ اکبر نہ صرف راجپوت جودھا بائی کو اپنے عقد میں لے آیا بلکہ ایک نیا مذہب دین الٰہی رائج کرنے کی بھی نیم دلانہ کوشش کی۔ ہندوستان میں اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا۔ تالیف قلوب اولیائے دین کی بدولت ہوئی۔ مجدد الف ثانی سید علی ہمدان، نظام الدین اولیائ، خواجہ اجمیر، سید علی ہجویری اور دیگران نے اپنے اخلاقِ حمیدہ سے خلقِ خدا کو گرویدہ کیا۔ باایں ہم ہندو ذہن نہ بدلا۔ وہ اس تمام عرصے میں مسلمانوں کو ملیچھ سمجھتے رہے۔ ان سے ہاتھ تک ملانے کے روادار نہ تھے کیونکہ اس صورت میں دھرم کے بھرشٹ ہونے کا اندیشہ لاحق رہتا۔ انگریز راج کو بھی انہوں نے بھگوان کی کرپا سمجھ کر قبول کیا۔ انہیں بخوبی علم تھا کہ انگریز تو ایک نہ ایک دن ہندوستان چھوڑ کر چلا جائے گا لیکن مسلمانوں کا جینا مرنا اسی دھرتی پر ہوگا۔ عالمی جنگ نے برطانیہ کو ہلا کر ر کھ دیا۔ اسے احساس ہوگیا کہ اس کی ایمپائر کا وہ سورج جو کبھی غروب نہ ہوتا تھا اب ڈھلنے والا ہے اس کی طاقت کا طلسم ٹوٹ چکا تھا۔ نوشتہ دیوار پڑھتے ہی آزادی کی تحریکوں نے زور پکڑا۔ ابتدائی مزاحمت کے بعد برطانیہ بھی ہندوستان چھوڑنے پر ذہنی طور پر تیار ہوگیا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے مقدور بھر کوشش کی اگر انہیں اپنی حفاظت حاصل ہو جائے تو وہ پرامن بقائے باہمی کے اصول کو اپناتے ہوئے ہندوستان میں ایک ساتھ رہنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ سوچ علامہ اقبال کی شاعری کے پہلے دور میں جگہ جگہ جھلکتی ہے نیا شوالہ اور دیگر نظمیں لکھی گئیں۔
پتھر کی مورتی میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
لیکن یہ خیال خام تھا۔ ہندو مسلمانوں کو عملاً غلام بنانے پر تلے ہوئے تھے اور مغربی طرز کی جمہوریت کے حوالے دیتے تھے۔ وہ دراصل They Wanted to Subject the Muslims to the Tyrrany of the Majority (عددی جبر کے ذریعے مسلمانوں کو مطیع کرنا چاہتے تھے) مسلمانوں کو علامہ اقبال اور محمد علی جناح کی سربراہی میں ہندو ذہن پڑھنے اور اس کی ذہنیت کو سمجھنے میں زیادہ دیر نہ لگی۔ انہیں احساس ہوا کہ ہندو ازم اور اسلام دو ایسے نظام زندگی ہیں جو ریل کی پٹڑیوں کی طرح کہیں بھی آپس میں نہیں ملتے۔ ان کا رہن سہن عبادات کلچر عادات و اطوار یکسر مختلف ہیں۔ وہ بتوں کو پوجتے ہیں۔ مسلمان خدائے واحد کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں۔ وہ گائے کو ماتا سمجھتے ہیں مسلمان اس کا حلال گوشت کھاتے ہیں۔ ان کے مندروں میں کوئی شودر نہیں گھس سکتا۔ بھگت گپتا کا اشکوک سننے والوں کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جاتا تھا اور ادھر… ایک دن توتلی زبان میں اذان کی آواز نہیں آتی تو رسالت مآب پوچھتے ہیں فاطمہ بیٹی کیا بات ہے آج بلال نے اذان نہیں دی؟ کون بلال اوہ حبشی زادہ حقیر
فطرت تھی جس کی نور نبوت سے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سکندر رومی کو تو کوئی نہیں جانتا ۔ حبشی کو دوام حاصل ہوگیا ہے۔ یہ دنیا کا واحد مذہب ہے جو محمود ایاز کو ایک صف میں لا کھڑا کر تا ہے۔ شاہ وگدا میں تمیز نہیں برتتا۔ خالق کائنات کے نزدیک افضل وہ ہے جو پرہیزگار اور متقی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں نے الگ ملک کا مطالبہ کیا تو مخالفت کا طوفان کھڑا ہوگیا۔ ہر طرف سے طنزو تشنیع کے تیر چلنا شروع ہوگئے۔ بڑی پھبتیاں کسی گئیں۔ اسے مجذوب کی بڑ اور دیوانے کا خواب کہا گیا۔ پنڈت زاہن ملا نے تو علامہ کی ہجو تک لکھ ڈالی۔
ہندی ہونے پر ناز جسے کل تک تھا حجازی بن بیٹھا
اپنی محفل کا رند پرانا آج غازی بن بیٹھا
اس یلغار کا علامہ کے پاس بڑا مؤثر استدلال تھا
جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا
اس کا مقام اور ہے، اس کا نظام اور ہے
غیر تو غیر اپنے بھی کسی غلط فہمی یا خوش فہمی کی وجہ سے مخالفت کرنے لگے۔ ان میں پیش پیش مولانا آزاد اور حسین احمد مدنی تھے۔ ویسے تو اور بھی کئی زعماء تھے لیکن جگہ کی تنگی کی وجہ سے ان دو صاحبان کا ذکر مقصود ہے حسین احمد مدنی جید عالم دین تھے اور ان کا تعلق دیو بند سکول سے تھا۔ انہوں نے وطنیت پر ایک ضخیم کتاب لکھ ڈالی۔ جواباً علامہ نے کہا
قلندر جْزو دو حرفِ لاالٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
قیہہ شہر قاروں ہے لْغت ہائے حجازی کا