آپ 24 جون 1896ء کو کھینگر ممدال کلاں، گوجرخان میں امیرباز خان کے ہاں پیدا ہوئے۔تین سال کی عمر میں والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے۔ان کی تعلیم کا آغاز حافظ فقیر محمد کی خدمت میں ناظرہ قرآن کریم سے ہوا،پھر قریبی قصبہ سرگڈھن کے پرائمری سکول میں داخل ہوئے جہاں سے 1910ء میں اول پوزیشن کے ساتھ پرائمری کا امتحان پاس کیا۔ 1912ء میں معاش کی تلاش انھیں کوئٹہ چھاؤنی لے آئی۔چھاؤنی کی مسجد کے امام حافظ محمد شریف بڑے علم دوست اور جوہر شناس تھے،انھوں نے آپ کا دینی ذوق دیکھا تو انھیں دینی تعلیم کے حصول کی ترغیب دی چنانچہ آپ ملازمت کے ساتھ ساتھ ان سے ابتدائی کتب پڑھنے لگے۔ جوں جوں ان کے علم میں اضافہ ہوتا گیا ان کا تحصیل علم کا شوق فزوں تر ہوتا گیا۔آپ کے شوق تعلیم کو دیکھتے ہوئے ان کے افسران مجاز سید محمد اور محمد صادق بروہی نے نسبتاً آسان کام ان کے سپرد کیا تاکہ انھیں حصول تعلیم میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔
1914ء میں حافظ محمد شریف کے اپنے آبائی علاقہ لوٹنے پر کچھ تعطل کے بعد آپ نے مولانا سید محمد عبداللہ شاہ سے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا، ان کے اچانک تبادلے کے بعد یہ سلسلہ پھر منقطع ہوا تو انھوں نے ملازمت چھوڑ کر باقاعدہ کسی درس گاہ میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔چنانچہ آپ نے 1915ء میں ملازمت سے مستعفی ہوکر گھوٹہ، ملتان کا رخ کیا اور مولانا غلام محمد محدث گھوٹوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی آمد کا مدعا بیان کیا۔ محدث گھوٹوی صاحب نے اپنے پاس پہلے ہی زیادہ اسباق ہونے کی وجہ سے ان کی تدریس کسی اور مدرس کے ذمہ لگانے کی تجویز دی۔محمد شادمان خان اس پر آمادہ نہ ہوئے اور کسی موزوں درس گاہ کی تلاش میں براستہ کندیاں ہری پور ہزارہ پہنچ گئے۔ اس دور اکثر یک فنی درس گاہیں ہوتی تھیں اور آپ سب فنون یکجا چاہتے تھے اس لیے آپ کا سفر چلتا رہا اسی تلاش میں آپ بیڑی بانڈی کی درس گاہ جا پہنچے۔
یہاں تدریس کا نظم بہت اچھا تھا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد استاد صاحب کے اپنے وطن مالوف لوٹنے کے بعد محمد شادمان خان بھی نئی منزلوں کے راہی بنے۔ کچھ عرصہ رجوعیہ(ایبٹ آباد) کی درس گاہ میں شرح وقایہ پڑھنے کے بعد آپ کی اگلی منزل تھٹی گوجراں میں پیر سید مہر علی شاہ صاحب کے مرید صادق مفتی عبدالرحیم کی درس گاہ تھی۔ یہاں فقہ اور فارسی کی تعلیم کمال کی تھی۔ یہاں پڑھانے جانے والے علوم کی تکمیل کے بعد آپ اپنی والدہ صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعاؤں کا زاد راہ لے کر آپ نے 1916ء میں کوٹ متصل بلبل پڑی درویزہ جہلم میں سید فضل اللہ شاہ چھبر والے کے قائم کردہ مدرسہ کا رخ کیا۔ یہاں مولانا محمد جی بلبل پڑی والے کی صحبت میں ایک سال گزارا۔
جون 1917ء میں آپ نے سلسلہ قادریہ میں قاضی سلطان محمود قادری (م 1919ء) آوان شریف، گجرات کی بیعت کی۔ اگست 1917ء میں آپ نے مدرسہ رحیمیہ نیلاگنبد لاہور میں داخلہ لیا۔ اس وقت وہاں مولانا عبدالعزیز (فاضل دارالعلوم دیوبند) صدر مدرس تھے۔ یہاں ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ آپ بیمار پڑ گئے۔ پھر اپنے عزیز دوست عبدالمجید کی مشاورت سے ایک ہفتے کی رخصت لے کر اچھرہ میں جامعہ فتحیہ آگئے۔ اس وقت یہاں حکیم عبد اللہ نامی ایک نو مسلم حکیم تھے جو بڑے نباض تھے۔ وہ مدرسے کے طلبہ کا مفت علاج کیا کرتے تھے ، ان کی درست تشخیص اور علاج کی بدولت آپ تندرست ہونے پرجامعہ رحیمیہ لوٹ آئے لیکن پرہیزی کھانا نہ ہونے کی وجہ سے کچھ ہی عرصہ بعد پھر بیمار پڑ گئے۔چنانچہ آپ دوبارہ جامعہ فتحیہ تشریف لائے اور میاں قمرالدین (مہتمم جامعہ فتحیہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی روداد سنائی تو میاں صاحب نے ان کے علاج معالجہ اور اپنے گھر سے پرہیزی کھانے کا انتظام کیا جس کی بدولت آپ جلد ہی صحت یاب ہوگئے۔ پھر انہوں نے جامعہ فتحیہ سے ہی تکمیل تعلیم کا ارادہ کر لیا۔
یہاں یہ طے پایا کہ محمد شادمان خان خود پڑھنے کے ساتھ ابتدائی درجات کے مبتدی طلبہ کو پڑھایا بھی کریں گے یوں آپ بیک وقت جامعہ فتحیہ میں حصول تعلیم کے ساتھ تدریس بھی کرنے لگے۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ ان کے پرانے اور پسندیدہ استاد مولانا محمدجی مدرسہ نعمانیہ، لاہور میں مدرس مقرر ہوئے ہیں تو انھوں نے میاں قمرالدین صاحب سے ان کے بارے گزارش کی۔ یوں شوال 1336ھ میں جامعہ فتحیہ نے 35 روپے مشاہرہ پر مولانا محمدجی کی خدمات حاصل کیں۔ مولانا شادمان خان کے 1912ء میں کوئٹہ چھاونی سے شروع ہونے والے تعلیمی سفر کی تکمیل 1919ء میں جامعہ فتحیہ سے اس وقت ہوئی جب انھیں میاں قمرالدین اور مولانا محمد جی کے ہاتھوں سند فراغت ملی۔
مولانا محمد شادمان خان کے تدریسی سفر کا باقاعدہ آغاز 1920ء میں ہوا جب پیر عبدالغفار کاشمیری (م:1922ء) نے انھیں پیر سکندر شاہ کے مدرسہ واقع گوبالن، مظفر آباد میں تدریس کے لیے بھیجا۔ دوران تدریس مولانا کے دل میں حفظ قرآن کریم کی خواہش پیدا ہوئی جس پر آپ حفظ کے لیے قاری قمرالدین کی خدمت میں مدرسہ حفظ القرآن الکریم کنڈی شاہ پور تشریف لے گئے اور صرف سات ماہ میں حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کی۔ حفظ کی تکمیل کے بعد آپ دوبارہ گوبالن میں تدریسی فرائض سرانجام دینے لگے۔ 1925ء تا 1926ء دو سال اپنے مرحوم دوست عبدالمجید کے بیٹوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے وڈالہ سندھواں، سیالکوٹ میں درس و تدریس میں مصروف رہے۔ آپ نے 1927ء میں اپنے گاؤں کھینگر ممدال کلاں میں مدرسہ عربیہ اشاعت القرآن کی بنیاد رکھی جو 1963ء تک جاری رہا۔ اس دوران آپ تقریباً ڈیڑھ سال مدرسہ محمدیہ، چونڈہ سیالکوٹ میں بھی تدریس کرتے رہے۔
درس و تدریس کے ساتھ آپ تصنیف و تالیف کے ذریعے بھی خدمت دین سر انجام دیتے رہے۔ آپ کی چند تصانیف درج ذیل ہیں:
1۔نافع المسلمین (یہ وراثت کے موضوع پر ہے۔قیام پاکستان سے قبل مسلمانوں میں بالعموم ترکہ کی تقسیم خلاف شریعت ہوتی تھی یہ کوتاہی تقریباً ہر طبقہ میں پائی جاتی تھی،اس لیے آپ نے عوام الناس کے استفادہ کے لیے یہ کتاب لکھی)
2 ۔ الوضع الاسلامی ( یہ داڑھی کی اہمیت پر ہے۔ 20 ویں صدی کے اوائل میں مسلم معاشرے میں داڑھی اسلامی وضع کا حصہ سمجھی جاتی تھی بعد میں جب وقت کے ساتھ داڑھی منڈوانے کا چلن عام ہوا تو مولانا نے یہ کتابچہ تالیف کیا)
3۔ کسب حلال (برطانوی استعمار کے دوران برصغیر کی تجارت پر تقریباً ہندووں کا غلبہ تھا مولانا شادمان خان تجارت کو پسند کرتے تھے کیونکہ بہت کم مسلمان اس شعبہ سے منسلک تھے۔اس میں آگے بڑھنے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ آپ نے اس کتابچہ میں تجارت کی اہمیت، اس کے اصول اور خرید و فروخت سے متعلق احکامات بیان کیے ہیں)
4۔ عوامل النحو (عربی زبان سیکھنے کے لیے علم النحو ضروری ہے اور علم النحو کا سمجھنا عوامل النحو کے بنا ممکن نہیں۔ مولانا نے اس کتابچہ میں مانۃ عامل کا اردو ترجمہ مثالوں اور تراکیب کے ساتھ پیش کیا ہے)۔
5۔ عربی قاعدہ ( تعلیم قرآن کریم کے لیے ابتدائی قاعدہ جس میں قرآن خوانی کے آسان قواعد انتہائی سادہ زبان میں بیان کیے گئے ہیں۔)
6۔ ماتم کی رسمیں(اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو اپنے پیروکاروں کی ہر ہر قدم پر رہنمائی کرتا ہے۔ اس نے فوت ہو جانے والوں کی تجہیز و تکفین، تدفین و تعزیت سے متعلق واضح ہدایات دی ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ لوگوں نے اس بارے دین کے اصل احکامات کو پس پشت ڈال کر ان کی جگہ رسومات کو دے دی اور ایسی رسومات ایجاد کیں جو اسلام کے مزاج کے برعکس ہیں، ان کی اصلاح کے لیے یہ کتابچہ لکھا گیا)
اللہ تعالی نے آپ کو چھے بیٹوں سے نوازا: 1) مولانا عبداللطیف جہلمی (وفات:1998ء) یہ بھی جامعہ فتحیہ سے فیض یاب ہوئے ہیں۔ 2) مولانا عبدالغفور (وفات: 1985 )۔ 3)مولانا عبدالحلیم (وفات:2000ء)۔ 4) مولانا عبدالحمید (وفات:1992ء)۔ 5) حافظ خالد محمود (پیدائش:1938ء) مدیر ادارہ تذکیر القرآن۔ آپ جامعہ عربیہ گوجرانوالہ سے فارغ التحصیل ہیں، پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے ایم او ایل کی اسناد کے حامل ہیں۔ ان کی مرتب کردہ کتاب ’ نقوشِ زندگی‘ اور براہ راست گفتگو سے مولانا محمد شادمان خان اور مولانا عبد اللطیف جہلمی کے بارے تفصیلی معلومات ملیں۔ 6) حکیم نثار احمد الحسن (وفات: 2017ء) مولانا شادمان خان 75 برس حیات مستعار گزار کر 6 مارچ 1971ء کو اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔
مولانا محمد شادمان خان
Apr 14, 2025