پاک بیلاروس تعلقات کا نیا دور

Apr 14, 2025

نازیہ مصطفےٰ

سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد جن نئی ریاستوں نے جنم لیا، اْن میں بیلاروس ایک ایسی کڑی ہے جو اپنی جغرافیائی حیثیت، تہذیبی ورثے، اور سیاسی موقف کے باعث ہمیشہ سے ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ پاکستان اور بیلاروس کے تعلقات کی داستان بھی کوئی نیا باب نہیں۔ یہ تو اْس پرانی کہانی کا تسلسل ہے جب ایوب خان کے دور میں بیلاروس کے ٹریکٹر پنجاب کے کھیتوں میں چلتے تھے۔ مگر وقت کے ساتھ یہ تعلقات صرف ٹریکٹروں تک محدود نہیں رہے۔ آج جب وزیراعظم شہباز شریف اور صدر لوکاشینکو ہاتھ ملاتے ہیں، تو یہ محض دو لیڈروں کی ملاقات نہیں ہوتی بلکہ دو تہذیبوں کے مابین ایک نئے معاہدے کا اعلان ہوتا ہے۔ کیا یہ معاہدہ پاکستان کے لیے نئی صبح کا پیغام لے کر آیا ہے؟ یا پھر یہ ایک اور ایسا وعدہ ہے جو کاغذوں کی نذر ہو جائے گا؟
بیلاروس کا رقبہ پنجاب جتنا ہے اور آبادی ایک کروڑ سے کم۔ مگر یہ ملک اپنی صنعت، زراعت، اور حربی آلات کی ٹیکنالوجی میں دنیا بھر میں ممتاز ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان جو اپنی 22 کروڑ اآبادی کے ساتھ ایک زرعی و صنعتی طاقت بننے کی صلاحیت رکھتا ہے، بیلاروس سے سیکھنے کے لیے تیار ہے؟ یا پھر ہماری حکومتیں محض معاہدوں کے کاغذات تک محدود رہیں گی؟ وزیراعظم شہباز شریف کا یہ بیان کہ "بیلاروس کی زرعی مشینری سے استفادہ کریں گے" اچھی بات ہے، مگر کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہم خود ایسی مشینری کیوں نہیں بنا سکتے؟ کیا ہماری یونیورسٹیاں، ہمارے انجینئر، ہمارے سائنسدان اس قابل نہیں کہ ٹریکٹر کے انجن تک بناسکیں؟
گزشتہ سال نومبر میں صدر لوکاشینکو کے دورہ پاکستان نے جو پاک بیلاروس تعلقات کی جو نئی بنیاد رکھی تھی، اْس پر اب ڈیڑھ لاکھ پاکستانی نوجوانوں کے روزگار کے معاہدہ کا تاج محل تعمیر ہونے جارہا ہے۔ یہ ایک طرف تو پاکستان کے لیے زرمبادلہ کے حصول کا سنہری موقع ہے، مگر دوسری طرف یہ سوال بھی پیدا کرتا ہے کہ کیا ہم اپنے نوجوانوں کو محض مزدوری کے لیے برآمد کرنے پر اکتفا کریں گے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہی نوجوان اگر ملک میں رہ کر اپنی مہارتوں سے پاکستان کی تعمیر میں لگ جائیں، تو کتنی ترقی ہوسکتی ہے؟ مگر المیہ یہ ہے کہ ہماری معیشت اِن نوجوانوں کو روزگار دینے سے قاصر ہے۔ کیا یہ ہماری ناکامی نہیں کہ ہمیں اپنی افرادی قوت کو بیرونِ ملک بھیجنا پڑ رہا ہے؟
دفاعی معاہدے کی بات کریں تو بیلاروس کی فوجی صنعت روسی ٹیکنالوجی کی مرہونِ منت ہے۔ کیا پاکستان کو ایک بار پھر کسی غیرملکی ٹیکنالوجی پر انحصار بڑھانا چاہیے؟ کیا ہم نے ترکی، چین، یا حتیٰ کہ خود اپنی دفاعی تحقیق سے کچھ سیکھا ہے؟ یاد رکھیں، جو قومیں دوسروں کے سہارے زندہ رہتی ہیں، وہ کبھی خودمختار نہیں بن پاتیں۔
زراعت کے شعبے میں بیلاروس سے تعاون کی بات ہو رہی ہے۔ مگر کیا ہم نے اپنے کسانوں کو جدید ترین ٹیکنالوجی تک رسائی دی ہے؟ پنجاب کے کھیتوں میں آج بھی ہل چلانے والا کسان اْسی روایتی انداز میں کام کر رہا ہے جو اْس کے باپ دادا کو ورثے میں ملا۔ کیا ہماری حکومت نے کبھی سوچا کہ بیلاروس کی مشینری خریدنے کی بجائے اْسے پاکستان میں تیار کرنے کی صلاحیت کیوں نہیں پیدا کی جاتی؟
بیلاروس میں پاکستانی مزدوروں کو بھیجنے کا فیصلہ اْس وقت کیا گیا ہے جب یورپ میں نسلی تعصبات اور مذہبی تفریق عروج پر ہے۔ کیا ہم نے سوچا ہے کہ یہ مزدور وہاں کی ثقافت میں کیسے گھلیں گے؟ کیا اْنہیں صرف مزدوری تک محدود رکھا جائے گا، یا اْن کے حقوق کا تحفظ ہوگا؟ کیا ہم نے ماضی کے تجربات سے کچھ سیکھا ہے جب خلیجی ممالک میں پاکستانی مزدوروں کو استحصال کا نشانہ بنایا گیا؟
وزیراعظم شہباز شریف کا یہ کہنا کہ’’بیلاروس میں پاکستانی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کریں گے‘‘ دراصل اْس خواب کی طرف اشارہ ہے جو ہر پاکستانی دیکھتا ہے۔ مگر خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے زمینی حقائق کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بیلاروس سے ٹیکنالوجی حاصل کریں، مگر اْسے اپنی ضروریات کے مطابق ڈھالیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو بیرونِ ملک بھیجیں، مگر اْن کی واپسی پر اْن کے تجربات سے ملک کی نئی تعمیر کریں۔
قارئین کرام! ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تعلقات کی مضبوطی تب ہی ممکن ہوتی ہے جب دونوں فریق ایک دوسرے کو برابر سمجھیں۔ بیلاروس ایک چھوٹا ملک ہے، مگر اپنی صلاحیتوں کے باعث طاقتور ہے، جبکہ پاکستان ایک بڑا ملک ہے، مگر اپنی کمزوریوں کے باعث مقروض ملک ہے۔ کیا ہم اپنی کمزوریوں کو طاقت میں بدل سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہمارے اقدامات میں پوشیدہ ہے۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں