احترامِ جمہوریت  

Apr 14, 2025

وزیر احمد جوگیزئی

یقیناً ملک اس وقت نہایت نازک اور پیچیدہ حالات سے گزر رہا ہے۔ یہ صرف پاکستان کی داستان نہیں، بلکہ پوری دنیا ایک غیر یقینی، بے سمتی اور تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے کا شکار ہے۔ بین الاقوامی سطح پر قیادت، اقتصادیات، اور سفارتی تعلقات میں جس تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے، اس کے اثرات پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر خاص طور پر محسوس ہو رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں امریکہ میں صدر ٹرمپ کی پالیسیاں عالمی اداروں کے لیے ایک دھچکا ثابت ہوئیں۔ وہ امریکہ جو اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں میں مالی معاونت کا سب سے بڑا ذریعہ تھا، وہاں اب امریکی شمولیت اور حمایت میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔ امریکہ کی ترجیحات میں تبدیلی کے سبب کئی بین الاقوامی پلیٹ فارم کمزور ہو گئے ہیں، اور دنیا ایک نئے سیاسی و سفارتی دور میں داخل ہو چکی ہے۔

لیکن اگر ہم اپنی داخلی صورتحال کا جائزہ لیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل بحران ہماری اندرونی کمزوریوں کا ہے۔ ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے، ان کی جڑیں ہماری سیاسی ناپختگی، آئینی غیر یقینی، اور جمہوریت کی مسلسل بے حرمتی میں پیوستہ ہیں۔ ہم نے آزادی کے بعد کئی برسوں تک آئین بنانے میں تاخیر کی۔ بھارت نے آزادی کے فوراً بعد ہی اپنا آئین نافذ کر دیا، جبکہ پاکستان میں آئین سازی کئی مارشل لاؤں، سیاسی مداخلتوں، اور بدقسمتی سے مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد ممکن ہوئی۔
1973ء  میں، شہید ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں، ایک متفقہ آئین تشکیل دیا گیا جو وفاق کی مضبوطی، صوبوں کے حقوق، اور عوام کی نمائندگی کا ضامن تھا۔ یہ ایک تاریخی کارنامہ تھا، لیکن افسوس کہ یہ آئین بھی بار بار آمریت کی زد میں آتا رہا۔ ہر مارشل لاء کے بعد آئین کو بگاڑا گیا، قوانین میں ترامیم کی گئیں، اور عوامی حقوق کو پامال کیا گیا۔ قانون کی بالا دستی کمزور ہوئی اور طاقت کا کھیل مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔
اگر ہم ماضی کے انتخابات پر نظر ڈالیں تو صرف 1970ء کے انتخابات کو ہی حقیقی معنوں میں شفاف اور عوامی مرضی کے مطابق تصور کیا جاتا ہے۔ ان انتخابات میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے واضح اکثریت حاصل کی، لیکن اقتدار منتقل نہ ہونے کے سبب ملک دولخت ہوا۔ اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں دھاندلی، سیاسی انجینئرنگ اور پس پردہ قوتوں کی مداخلت کا سلسلہ جاری رہا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات نے جمہوریت کو مزید کمزور کیا، اور آٹھویں ترمیم کے ذریعے کچھ آئینی پہلو بحال کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن یہ بھی مکمل کامیاب نہ ہو سکی۔
آج ایک بار پھر ہمیں یہ احساس شدت سے ہو رہا ہے کہ ملکی مسائل کا حل صرف ایک حقیقی، خالص اور مکمل بااختیار عوامی حکومت ہی دے سکتی ہے۔ ایسی حکومت جو عوام کے ووٹ سے منتخب ہو، جس کے پیچھے کوئی اسٹیبلشمنٹ یا طاقتور عناصر کا سایہ نہ ہو۔ اس کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم شفاف انتخابات کا نظام قائم کریں، فارم 47 جیسے متنازعہ طریقوں سے نجات حاصل کریں، اور انتخابات میں شفافیت، غیر جانبداری اور آئین کی روح کو بحال کریں۔
سینیٹ کو بھی عوامی ووٹ سے منتخب کرنے کا نظام رائج کیا جائے تاکہ وہ بھی قومی اسمبلی کے برابر مؤثر ہو اور اپنے فیصلے خود کر سکے۔ جب تک ہم نمائندہ اداروں کو حقیقی طاقت نہیں دیں گے، مسائل کا حل ممکن نہیں ہو گا۔ قانون سازی ہو یا صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم، ہر پہلو میں شفاف اور بااختیار جمہوری اداروں کا کردار ناگزیر ہے۔
پاکستان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی بیش بہا نعمتوں سے مالا مال ملک ہے۔ یہاں وسیع و عریض زرعی زمینیں ہیں، چاروں موسم ہیں، زیرِ زمین معدنیات کے بے شمار ذخائر موجود ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہاں کا کسان نہایت محنتی اور ہنر مند ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا ایک بڑا زرعی رقبہ بنجر پڑا ہے، نہری نظام پرانی بنیادوں پر قائم ہے، اور پانی کی شدید کمی مسائل کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ بارش کے پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ ہر سال اربوں کیوبک میٹر پانی سیلاب بن کر تباہی مچاتا ہے اور سمندر میں جا گرتا ہے۔ اس پانی کو محفوظ کرنے کے لیے چھوٹے بڑے ڈیمز بنائے جائیں، واٹر ہارویسٹنگ کے جدید طریقے اپنائے جائیں، اور دیہی علاقوں میں زراعت کو فروغ دیا جائے۔ بنجر پاکستان کو زرخیز بنائے بغیر ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
آج پانی کے مسئلے پر ہمارے دو بڑے صوبے آمنے سامنے ہیں۔ پانی کی تقسیم پر اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایوب خان کے دور میں جو معاہدہ بھارت سے دریاؤں کے حوالے سے کیا گیا، وہ آج ہمارے لیے ایک مسلسل چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ہمیں اب ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا، اور سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ پانی کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جا سکے۔ پانی زندگی ہے، اور اس کی منصفانہ تقسیم، ذخیرہ اندوزی اور استعمال ہمارے مستقبل کا تعین کرے گی۔
احترامِ جمہوریت صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ یہ ایک مکمل طرزِ فکر، طرزِ حکمرانی اور طرزِ زندگی ہے۔ جمہوری روایات کا فروغ، اداروں کی خودمختاری، عوامی رائے کا احترام، اور آئین کی بالادستی وہ ستون ہیں جن پر ایک مضبوط، پرامن اور خوشحال پاکستان کھڑا ہو سکتا ہے۔ ہمیں اب فیصلہ کرنا ہے کہ ہم جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں یا ان قوتوں کے ساتھ جو بار بار اسے کمزور کرتی رہی ہیں۔
وقت آ چکا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کا ادراک کریں، اور اپنے سیاسی، معاشی اور آئینی نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کریں۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں ترقی، خوشحالی اور قومی یکجہتی کی منزل تک لے جا سکتا ہے۔

مزیدخبریں