پانچ اگست 2019 کو جب نریندرا مودی کی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کیا اور وہاں لاک ڈاؤن لگایا اس کے بعد کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کو تاریخ کے بدترین مظالم کا سامنا کرنا پڑا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پانچ اگست دو ہزار انیس سے پہلے کشمیری مسلمانوں کہ زندگی میں سکون تھا اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ نریندرا مودی کے پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت بدلنے کے بعد وہاں حالات تبدیل ہوئے ہیں۔ مسلمانوں پر صرف زندگی تنگ ہوئی ہے اور آج بھی انہیں ایسے ہی مشکل حالات کا سامنا ہے۔ آج فلسطین میں ہزاروں لوگ شہید ہو گئے ہیں، بچوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، تاکہ نہ یہ بڑے ہوں نہ ان کی شادیاں ہوں نہ ان کہ نسلیں آگے بڑھیں اور نہ سرزمین فلسطین پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا نعرہ لگانے والے نظر آئیں، ہسپتالوں کو تباہ کیا جا رہا ہے تاکہ زخمیوں کو طبی امداد نہ ملے اور وہ اس تکلیف میں جان سے جائیں کہ انہیں دیکھ کر دیگر لوگ اور اقوام سبق حاصل کریں۔ دونوں مقامات پر مسلمانوں کی نسل کشی صرف اور صرف لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی وجہ سے ہے۔ کشمیر کے لاک ڈاؤن پر امت مسلمہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور یہی حالت آج فلسطین میں مسلمانوں کی ہے۔ میں نے اگست دو ہزار انیس کے دوران کئی ہفتوں تک یہی لکھا تھا کہ کشمیر میں ہونے والی جنگ مذاہب کی جنگ ہے اسے زمین کی لڑائی کہنا ہرگز مناسب نہیں ہے۔ آج فلسطین میں شہید ہونے والے مسلمانوں پر بھی یہی کہتا ہوں کہ اسے سیاسی مسئلہ نہ کہا جائے یہ خالصتا ایک مذہبی مسئلہ ہے اور اسے مذہبی نگاہ سے ہی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال اس معاملے میں امت مسلمہ کا کردار مایوس کن ہے، ایران کے سوا کسی بھی مسلمان ملک نے اس جرات اور دلیری کا مظاہرہ نہیں کیا، درجنوں مسلمان ملک ہیں لیکن سب کے سب دبکے ہوئے ہیں۔ انہیں کس کا خوف ہے، یہ کس دین کی تبلیغ کر رہے ہیں، کیا ہم نے نعوذ باللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی احادیث کو بھلا دیا ہے کیا ہم اس حدیث مبارکہ کو بھول گئے جس کا مفہوم ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ کیا آج کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی تکلیف دیکھ کر ہمارے خون گرم کیوں نہیں ہوتا، ہم کیوں اتنے سکوں میں ہیں اگر کشمیر اور فلسطین میں خون بہہ رہا ہے، ہمیں نیند کیسے آتی ہے جب ان دونوں مقامات پر ہر لمحہ ہمارے بچے، بچیاں، بہنیں، مائیں، بھائی اور بزرگ تکلیف میں ہیں۔ یہی وہ احساس ہے جسے جاگنے کی ضرورت ہے۔ جس انداز میں مغربی طاقتیں اسرائیل کی حمایت میں ہیں کیا امت مسلمہ کو فلسطینیوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ وہ تو سننے میں آ رہا یے خیبر کی فتح کو یاد کر کے چیلنج کیے جا رہے ہیں۔ سننے میں آ رہا ہے کہ کچھ دنوں پہلے اسرائیل کے کچھ نوجوان اپنے ہاتھوں میں اک تختی لیکر سڑکوں پر دیکھے گیے جس پر لکھا تھا۔
(khaibar was your Last chance)
(خیبر کی فتح تمہارے لیے آخری موقع تھا)
کاش کہ آج مسلمان اس طنز کو سمجھ سکتے، کاش مسلمان اس درد کو سمجھتے، کاش مسلمان اس جملے کی اہمیت کو سمجھتے، آج تو حالت یہ ہے کہ خیبر کی فتح بھی یاد کروانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
تاجدار انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور حیات میں یہودیوں سے ایک جنگ ہوئی تھی۔اس جنگ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی شریک تھے۔ جس میں حضرت علی رضی اللہ کی ڈھال ٹوٹ گئی تھی اور حضرت علی نے در خیبر ( خیبر کا دروازہ ) اکھاڑ دیا تھا۔ اس دروازے کے وزن بارے بتایا جاتا ہے کہ جنگ کے بعد چالیس لوگ مل کر بھی نہیں ہلا سکے تھے۔ اس جنگ میں یہودیوں کو بہت بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یہ تاریخی جنگ ہے اور مسلمانوں کی بہت بڑی کامیابی تھی لیکن آج مسلمانوں کی بڑی تعداد نے شاید اس فتح کو فراموش کر دیا ہے کیونکہ آج مسلمان اپنی تاریخ اور روایات کو بھول چکے ہیں۔ دوسری طرف یہود آج بھی وہ تختی لے کر گھوم رہے ہیں اور مسلمانوں سے اپنی دشمنی نبھا رہے ہیں وہ ہمیں یاد کروا رہے کہ خیبر کا بدلہ لیں گے۔ ممکن ہے بعض حلقے اس حوالے سے کوئی پراپگنڈہ بھی کریں لیکن جس پستی میں مسلم امہ گری ہوئی ہے انہیں جگانے کے لیے کچھ ایسا کرنا ہی پڑے گا۔ "مسلمانو خیبر کی جیت تمہاری آخری جیت تھی، اب تم ہم سے کبھی نہیں جیت سکتے "۔ بس یہی فرق ہے ہم مسلمان اور یہودی اور کافروں کے بیچ کہ وہ آج بھی اپنی ہار کو نہیں بھولے اور ہم ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیا ایپس پر وقت ضائع کرنے میں مشغول ہیں۔ آ ج ہمیں خیبر کی فتح کو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے بچوں اور جوانوں کو یاد کروانے کی ضرورت ہے۔ ان کو بتائیں کہ کیسے مسلمان غزوہ خندق کے بعد ابھی ہتھیار رکھ ہی رہے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ آ پ نے ہتھیار رکھ دیے مگر ہم نے نہیں رکھے ، چلیں مدینہ کے یہودیوں کو بدعہدی کا سبق سیکھا دیں۔اس پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فورا روانہ ہو گئے تھے۔ بنو قریظہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور ان کو آ خرکار ذلت آ میز شکست ہوئی تھی۔ اللّہ اب ہم سب کو ہدایت دے کہ اپنے اعمال کو صحیح کریں اور ہر مومن کو اپنا بھائی سمجھیں۔ آپس میں اتحاد و اتفاق قائم کریں اور اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل کر کے فتح خیبر کی یاد تازہ کریں-
آخر میں امجد اسلام امجد کا کلام
میں تیرے سنگ کیسے چلوں سجنا
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
تو میرا ہاتھ ہاتھوں میں لے کے چلے، مہربانی تیری
تیری آہٹ سے دل کا دریچہ کھلے، میں دیوانی تیری
تو غبار سفر، میں خزاں کی صدا
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
تو بہاروں کی خوشبو بھری شام ہے، میں ستارہ تیرا
زندگی کی ضمانت تیرا نام ہے، تو سہارہ میرا
میں نے ساری خدائی میں تجھ کو چنا
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
تم چلو تو ستارے بھی چلنے لگیں، آنسوؤں کی طرح
خواب پہ خواب آنکھوں میں جلنے لگیں آرزو کی طرح
تیری منزل بنے میرا ہر راستہ
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
میں تیرے سنگ کیسے چلوں سجنا
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا