ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اثرات عوام الناس پر واضح دکھائی دینے لگے ہیں۔ غریب اور متوسط طبقات جو پہلے ہی مشکل صورت حال سے دوچار تھے گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نے انہیں مزید پریشان کردیا ہے کہ وہ گرمیاں کس طرح گزاریں گے جبکہ حکومت بتا چکی ہے کہ آئی ایم ایف سے مزید قرض سے قبل نہ صرف بجلی وگیس کی قیمتوں میں اضافہ ضروری ہے۔ بلکہ آنے والے بجٹ میں مزیدٹیکسوں کا نفاذ بھی ناگزیر ہے۔ ساتھ ہی ماضی کی طرح حسب روایت عوام کی اشک شوئی کیلئے جھوٹی تسلیاں بھی دی جارہی ہیں کہ نئے ٹیکسوں کا بوجھ غریبوں پر نہیں ڈالا جائیگا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ صنعت کار ہوں، ہول سیلر یا ریٹیلر۔ یہ سب حکومت کی طرف سے نافذ کیے جانے والے ہرطرح کے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر منتقل کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ابھی بجٹ کی تیاریاں شروع نہیں ہوئیں اس کے باوجود زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اشیاء خوردونوش کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ نومنتخب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے قیام کے و قت ناجائز منافع خوروں ، ذخیرہ اندوزوں اور من مانی قیمتیں وصول کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لانے کے تمام تردعوے ہوا میں تحلیل ہوچکے ہیں۔ ناجائز منافع خور بھی جانتے تھے کہ انکے خلاف کارروائی کے حکومتی دعوے سیاسی بیانات کی طرح ہو تے ہیں جنہیں سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان بھر میں ناجائز منافع خوروں نے ماہ رمضان کا احترام بالائے طاق رکھتے ہوئے دبا کر عوام کو لوٹا ہے اور روزہ داروں پر رتی بھر ترس کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔
ایک طرف عوام پر بڑھتا ہوا معاشی دباؤ ہے تو دوسری طرف سیاسی عدم استحکام جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اور اب اچانک پی ٹی آئی جوکہ پارلیمنٹ میں موثر اپوزیشن کا کردار ادا کرسکتی تھی اس کے لیڈران میں گروہ بندی اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نے عوام سے ان کی یہ امید بھی چھین لی ہے کہ بطور اپوزیشن پارٹی پی ٹی آئی اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ اور مہنگائی کے خلاف پارلیمنٹ میں عوام کی آواز بنے گی۔لیکن پی ٹی آئی کو اپنے باہمی جھگڑوں سے ہی فرصت نہیں۔پارٹی کے اندر انتشار کی صورت حال یہ ہے کہ پارٹی کی ایک اہم رکن نے نجی ٹیلی ویڑن چینل کے ٹاک شو کے دوران برملاکہہ دیا کہ قومی اسمبلی کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی صوبائی اسمبلیوں سے اجتماعی استعفیٰ بہت بڑی سیاسی غلطی تھی جس کی قیمت پارٹی ابھی تک ادا کررہی ہے۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ گزشتہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی طرف سے عدم اعتماد کی کامیاب ہونے والی تحریک کو ’’سپورٹس مین سپرٹ‘‘ یا جمہوری اصولوں کے مطابق خندہ پیشانی سے تسلیم کرتے ہوئے پی ٹی آئی اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دیتی اور سات سیٹوں کے فرق کے ساتھ پی ڈی ایم کی حکومت کے ہر اس اقدام یا قانون سازی کیلئے لائے گئے بل کے خلاف ڈٹ کر مزاحمت کرتی جو اس کی نظر میں عوامی عوام کے حق میں نہیں تھے تو آج ملک میں سیاسی حالات یکسر مختلف ہوتے۔
مگر ضد اور خود کو ہر قیمت پر تسلیم کروانے کی دھن میں ایک کے بعد دوسرا انتہا پسندی پر مبنی فیصلہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی قیادت ’’میں نہ مانوں‘‘' کے بیانیہ کے ساتھ سیاسی ماحول کو کشیدگی کی نذر کرتے ہوئے ایسی سطح پر جا پہنچی جس کے بعد اناپارٹی کے اندر صلح جوئی کی سوچ رکھنے والوں پر حاوی ہوتی چلی گئی۔ اس ضد کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پارٹی کے اندروہ لیڈران جو اسٹیبلشمنٹ سے مخاصمت رکھتے تھے وہ پارٹی کوحکومتی سیاسی اتحاد کی طرف لے جانے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے مدمقابل لے آئے اور سوشل میڈیا پر ایسا ماحول بنادیا گیا جیسے پی ٹی آئی جلد ہی اپنے ہی ملک کی سلامتی کے ضامن ادارے کو شکست سے دوچار کر نے والی ہے۔ سوشل میڈیا پر باہمی پیغامات کے ذریعے پاک فوج اور فوج کے خفیہ اداروں کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان برپا کردیا گیا۔ تضحیک آمیز اور غیر اخلاقی جملہ بازی کرنے والوں میں وہ عناصر بھی شامل تھے جو جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں مراعات سمیٹتے رہے۔ شاید ان عناصر کی پارٹی کے اندر بقا ہی اسی میں تھی کہ وہ پی ٹی آئی کے ووٹروں کو اسٹبلشمنٹ کیخلاف بھڑکائے رکھیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملک میں سیاسی کشیدگی کا یہ عمل اسی طرح جاری رہاتو اسکے معیشت پر تو برے اثرات مرتب ہونگے ہی، عوام الناس جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ان کا مزید بھرکس نکل جائیگا۔گو کہ پی ٹی آئی میں صلح جوئی کا احساس موجود ہیں لیکن اس طرح کی سوچ رکھنے والے لیڈران اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ کہیں ان پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا الزام لگا کر انہیں پارٹی سے نکال باہر نہ کیاجائے۔ پی ٹی آئی کے بانی جو پہلے ہی اپنے سیاسی بلنڈرز اور اس کی وجہ سے پارٹی ورکروں پر پڑنے والی افتاد کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ پر ڈالتے رہے ہیں۔ جس کا اظہار انہوں نے گزشتہ دنوں جیل میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو کے دوران ایک بار پھر لندن پلان کو اپنی حکومت کے خاتمہ کی وجہ قرار دیتے ہوئے کیا۔ حالانکہ وہ ابتدا میں امریکی نائب وزیر خارجہ ڈونلڈ کو اپنی حکومت کے خاتمہ کا ذمہ دارقرار دیا کرتے تھے تاہم گزشتہ دنوں امریکی نمائندگان کے روبرو ڈونلڈ کی پیشی کے بعد اب اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح عدالتوں سے ملنے والی رعایتوں کے باوجود انہوں نے عدالتوں کو بھی پی ٹی آئی مخالف قرار دے دیا۔الزام درالزام اور پھر نئی طرز کے الزامات کودیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر ایک مخصوص اسٹیبلشمنٹ مخالف ذہن ایک بار پھر 9مئی کی طرز پر کوئی سانحہ رونما نہ کرا دے۔ کچھ سیاسی تبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ پارٹی کے اندر موجود باہمی اختلافات کے منظر عام پر آنے کے بعد پارٹی کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے اورپارٹی ورکروں کو متحدرکھنے کیلئے پی ٹی آئی کے کچھ لیڈران سوشل میڈیا پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تحفظات کوہوا دے رہے ہیں اور تاثر دیا جارہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی بھی یہی چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس سے نہ تو پی ٹی آئی کوئی سیاسی فائدہ حاصل کرسکتی ہے نہ ہی عوام الناس کا بھلا ممکن ہے۔