جرمنی کا علاقائی امن و استحکام کیلئے پاکستان کے کردار اور قربانیوں کا اعتراف اور تعاون کا عندیہ
جرمنی نے خطے میں دہشت گردی کے خاتمہ اور قیام امن کیلئے پاکستان کے کردار اور قربانیوں کی ستائش کرتے ہوئے اسے مثالی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ افغانستان میں قیام امن اور مذاکرات کیلئے بھی پاکستان کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے دو روزہ دورۂ جرمنی کے موقع پر گزشتہ روز مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ ہیکوماس نے کہا کہ خطے میں قیام امن کیلئے پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ہونے کے ناطے افغان امن عمل کیلئے پاکستان کی بہت اہمیت ہے۔ افغانستان میں تشدد کے خاتمہ اور امن کیلئے مذاکرات جاری رہنے چاہئیں۔ انکے بقول خطے کا اقتصادی استحکام مستحکم پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے۔ انہوں نے پاکستان بھارت پرامن تعلقات کیلئے پاکستان کے موقف سے اتفاق کیا۔ اس موقع پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ پرامن تعلقات کا خواہش مند ہے تاہم مذاکرات کیلئے بھارت کو سازگار ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ انہوں نے جی ایس پلس کے حصول میں جرمنی کے تعاون پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستان جرمنی کے ساتھ تعلقات فروغ دینے کا خواہاں ہے اور پاکستان میں تجارت کیلئے بہترین مواقع موجود ہیں۔ پاکستان افغان معاملہ سمیت دیگر امور پر جرمنی کے ساتھ رابطے میں رہے گا۔ انہوں نے کرونا وائرس سے عہدہ برأ ہونے کیلئے جرمنی کی معاونت پر بھی اطمینان کا اظہار کیا اور بتایا کہ پاکستان کو جرمنی سے ڈیڑھ کروڑ کرونا ویکسین ملے گی جس کی ترسیل آئندہ ماہ مئی میں ہوگی۔ پاکستان جرمنی وزرائے خارجہ کی ملاقات کے دوران جو گزشتہ روز برلن میں ہوئی‘ دوطرفہ تعلقات اور پارلیمان کی سطح پر روابط کے فروغ سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر جرمنی میں تعینات سفیر پاکستان ڈاکٹر محمد فیصل بھی موجود تھے۔
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا دورۂ جرمنی کثیرالمقاصد ہونے کے ناطے بالخصوص پاکستان کی سلامتی و خودمختاری کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دورہ جہاں پاکستان اور جرمنی کے سفارتی تعلقات کے 70 سال پورے ہونے پر پاکستان کی جانب سے جرمنی کیلئے تعلقات کی مزید مضبوطی اور وسعت کا پیغام تھا وہیں اس دورے سے یورپی یونین کے ساتھ تجارتی تعلقات کیلئے پاکستان کو جی ایس پلس کا سٹیٹس ملنے کی راہ بھی ہموار ہوئی ہے جس سے پاکستان کی برآمدات کو فروغ حاصل ہوگا اور اسکی مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک آسان رسائی حاصل ہو جائیگی جبکہ وزیر خارجہ کے دورۂ جرمنی کو اس لئے بھی اہمیت حاصل ہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے آئندہ جون کے اجلاس میں گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے جن 13 ووٹوں کی ضرورت ہے‘ وہ جرمنی کی حمایت اور اسکی کوششوں سے ایف اے ٹی ایف کے رکن دوسرے یورپی ممالک کے قائل ہونے پر ہمیں دستیاب ہو سکتے ہیں۔ اسکے برعکس بھارتی لابی کے پاکستان مخالف زہریلے پراپیگنڈہ کے تحت برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو ہائی رسک ممالک میں شامل کرکے اسکے گرے لسٹ سے نکلنے کی راہیں مسدود کرنے اور اسے بلیک لسٹ کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی گئی۔ وزیر خارجہ کا دورۂ جرمنی بنیادی طور پر برطانوی فیصلہ کے مضر اثرات زائل کرنے کی کوشش کا ہی حصہ ہے اور یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ جرمنی خود بھی دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کا قائل ہے جس کا جرمن وزیر خارجہ نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران بطور خاص تذکرہ کیا۔ دفتر خارجہ کی جانب سے اس حوالے سے ٹھوس موقف بھی دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور باور کرایا گیا ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کے قریب ہے جس کے 24 نکات پر 27 مئی سے عملدرآمد اس کا ثبوت ہے۔
پاکستان کے اس موقف کے ساتھ ہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جرمنی کا دورہ کیا اور باور کرایا کہ پاکستان کو ہائی رسک ممالک میں شامل کرنے کے حوالے سے برطانیہ کا موقف درست نہیں‘ ہمیں توقع ہے کہ برطانیہ حقائق کی روشنی میں اپنی ریگولیشنز کا دوبارہ جائزہ لے گا اور سیاسی بنیادوں پر غلط اقدامات سے اجتناب کریگا۔ انہوں نے جرمن وزیر خارجہ کو اس امر سے بھی آگاہ کیا کہ پاکستان نے اینٹی منی لانڈرنگ اور کائونٹر ٹیرر فنانسنگ کے بارے میں اقدامات کئے ہیں۔ اس حوالے سے جرمن وزیر خارجہ کا دہشت گردی کی جنگ اور خطے میں قیام امن کیلئے پاکستان کے کردار اور قربانیوں کا اعتراف اس امر کا عکاس ہے کہ جرمنی علاقائی امن کیلئے پاکستان کے موقف کے ساتھ کھڑا ہے جو اس حوالے سے یورپی یونین کے دیگر ممالک کو بھی قائل کر سکتا ہے۔ ایسا ہی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہمیں روس کی جانب سے روسی وزیر خارجہ کے حالیہ دورۂ اسلام آباد کے موقع پر آیا ہے جس سے توقع کی جاسکتی ہے کہ ہم اپنی ٹھوس سفارتی کوششوں کے نتیجہ میں دہشت گردوں کی مبینہ سرپرستی سے متعلق بھارتی زہریلے پراپیگنڈہ کا مؤثر توڑ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں چنانچہ بیرونی دنیا کے قائل ہونے پر ہماری تجارت کا بیرونی منڈیوں تک دائرہ وسیع ہوگا اور ہماری معیشت کے استحکام کی راہ بھی ہموار ہو جائیگی۔
ہمارے لئے یہ صورتحال بھی خوش آئند ہے کہ آج بھارت کے زیراثر یورپی ممالک بھی علاقائی امن کیلئے مسئلہ کشمیر پر ہمارے موقف کے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں جو بھارت کو یواین قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ مغربی اور مشرقی جرمنی کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات یکے بعد دیگرے 1950ء میں قائم ہوئے تھے جو 1961ء میں دوطرفہ دوستانہ تعلقات میں تبدیل ہوئے اور پھر 1994ء میں دیوار برلن گرائے جانے کے عمل کی تکمیل اور متحدہ فیڈرل ری پبلک جرمنی کی تشکیل کے بعد مزید مستحکم ہوئے۔ آج پاکستان اور جرمنی کے مابین مثالی دوستانہ اور تجارتی تعلقات استوار ہیں جس کا اندازہ اس سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ 2019ء تک پاکستان کیلئے جرمنی کی برآمدات کا حجم ایک عشاریہ آٹھ بلین یورو تھا جبکہ جرمنی کیلئے پاکستان کی برآمدات کا حجم ایک عشاریہ ایک بلین یورو تھا جو پاکستان کی تجارت کے فروغ کیلئے خاصہ حوصلہ افزاء ہے۔ اس وقت پاکستان کے 74 ہزار کے قریب شہری جرمنی میں مقیم ہیں جو پاکستان کے زرمبادلہ کے استحکام میں معاون بن رہے ہیں۔ پاکستان جرمنی سفارتی تعلقات کے 70 سال ان دونوں ممالک کی معیشتوں ہی نہیں‘ علاقائی امن و استحکام کی بھی ضمانت بن رہے اور جرمنی کی چانسلر مرکل کے مجوزہ دورۂ پاکستان سے علاقائی استحکام کی مزید راہیں کھلیں گی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38