بدھ ‘ 1442ھ‘ 14؍ اپریل2021ء
پاکستان سفرکے لیے محفوظ ملک‘ سیاحوں کو آنے دینگے: جاپانی سفیر
موجودہ حکومت سیاحت کے حوالے سے پاکستان کا امیج بہتر بنانے کے لیے جو کام کر رہی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ سیاحت کے فروغ سے ملک میں ہزاروں افراد کو روزگار حاصل ہو گا۔ دنیا بھر میں سیاحت کو ایک منافع بخش انڈسٹری تصور کیا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں سیاحت کے حوالے سے بہت کچھ موجود ہے۔ اگر ان سیاحتی‘ تاریخی اور مذہبی مقامات کو سہولتوں کے اعتبارسے پرکشش بنایا جائے۔ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو یہاں تک آمدورفت ، رہائش اور خوراک کی بھرپور سہولتیں فراہم کی جائیں ، انہیں عالمی سطح جیسی نہ سہی مگر کم از کم عمدہ قسم کی سہولتیں فراہم کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا بھر سے سیاح ہمارے ملک نہ آئیں۔ اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے یورپ نہ سہی انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسی سیاحتی پالیسیاں ہمارے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں۔ اب جاپانی سفیر نے گزشتہ روز بودھ مذہبی مقامات کا دورہ کرتے ہوئے پاکستان میں امن و امان کی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ملک کے سیاحوں کو پاکستان میں بودھ مذہبی مقامات کی سیاحت کیلئے اجازت کا جو فیصلہ کیا ہے ، اس کے بھی ہماری سیاحت پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ ٹیکسلا ، آزاد کشمیر اور خیبر پی ۔ کے قدیم گندھارا دور کے بے شمار تاریخی اور مذہبی آثار قدیمہ سے بھرا ہوا ہے۔ اگر جاپان کی طرح چین اور دیگر بدھ ازم کے پیروکار ممالک سے صرف مذہبی مقامات کی سیاحت کے لیے ہی لوگ آنا شروع ہو گئے تو حکومت کا فروغ سیاحت مشن رنگ لا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
ڈسکہ: پی ٹی آئی اور لیگی کارکنوں میں ڈنڈے چل گئے۔ 5 زخمی
الیکشن ختم ہوا، رات گئی بات گئی۔ اب یہ لڑائی ، مارکٹائی چہ معنی دارد۔ یہ تو نری جہالت ہے۔ جیتنے والے اپنے اپنے حصے کا جشن اور سوگ منا چکے۔ کارکنوں کو بھی اب اپنا مزاج ٹھنڈا کرنا چاہئے۔ یہ سیاسی گرمی سردی کا ایک خاص موسم اور وقت ہوتا ہے۔ اسے ہم الیکشن بخار بھی کہہ سکتے ہیں۔ جب رزلٹ آگیا تو سمجھ لو اب سب کو قرار آ جانا چاہئے۔ نجانے کیوں ہمارے ہاں سیاسی نظریات کو ذاتی دشمنی تک پہنچایا جاتا ہے۔ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ پہلے کی نسبت یہ معاملہ کچھ کم پڑتا جا رہا ہے۔ مگر پھر بھی ہمارے گرم مزاج نوجوان یا سخت گیر سیاسی بے فکرے ابھی تک ڈانگ، سوٹے ، لاٹھی ، ہاکی کے بل بوتے پر اپنی سیاسی وابستگی ثابت کرنے پر تلے نظر آتے ہیں۔ کئی مولا جٹ اور نوری نت قسم کے لوگ تو دو ہاتھ آگے بڑھ کر ریوالور، پستول کے علاوہ بندوق اور کلاشنکوف کی زبان میں بھی اپنے سیاسی نظریات کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں جو بہرحال غلط ہے۔ اس رویے کو بڑھاوا نہیں ملنا چاہئے۔ کیونکہ اس وجہ سے ہونے والے تصادم کے بعد سیاسی اختلافات دشمنیوں میں بدل جاتے ہیں۔ ایسے منفی رویوں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں بھی کارکنوں کی تربیت اس نہج پر کریں کہ اسلحہ کی زبان میں کسی سے بات کرنے کی سوچ بھی ان میں پیدا نہ ہو۔ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے اسے دنگا فساد کی کالک مل کر بدنما نہ بنایا جائے۔
٭٭٭٭٭
حکومت پنجاب نے محکمہ مال کے پٹواریوں کو سبزی فروخت کرنے پر لگا دیا
اس انقلابی اقدام پر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو شاباش دی جائے یا ڈی سی لاہور کا کاندھا تھپتھپایا جائے یہ ان کا حق ہے۔ محکمہ مال کے پٹواریوں کو دیر آید درست آید۔ کسی حکومت نے تو راہ راست پر لانے کے لیے رزق حلال کمانے کے طریقے سے آگاہ کرنا شروع کیا ہے۔ اب انہیں پتہ چلے گا کہ مربعوں کا حساب کتاب رکھنا وہ بھی درجنوں معاونوں کو ساتھ بٹھا کر کیا ہوتا ہے اور سبزی منڈی سے سبزیاں خرید کر کلو دو کلو کے حساب سے سرکاری نرخوں پر فروخت کرنا کیا ہوتا ہے۔ مربعوں کا حساب رکھنے والے ان پٹواریوں کے سامنے بڑے بڑے پھنے خان ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں۔ اب معاملہ اُلٹ ہے۔ معمولی خراب سی سبزی پر خریدار انہیں سو سو باتیں سُنا کر ان کا دماغ جو عرش پر رہتا ہے واپس فرش پر لائیں گے۔ کیا معلوم کئی پٹواری گلی گلی سبزی کی ریڑھی لے کر اونچی آواز میں سبزیوں کے نام اور ریٹ بتا بتا کر بے ہوش ہی نہ ہو جائیں کیونکہ انہیں ایسا مشقت طلب کام وہ بھی بلامعاوضہ کرنے کی عادت ہی نہیں ہوتی‘ ہاں البتہ سبزیوں میں گھپلا کریں تو الگ بات ہے۔ کہاں لوگوں کی جیبوں سے مال نکالنے کا فن کہاں یہ بیگار اور مفت کی مشقت۔ کئی عقل مند پٹواریوں نے تو آواز لگانے ، ریڑھی کھینچنے اور سبزیاں تولنے کا کام اپنے منشیوں کے سپرد کر دیا ہے۔
٭٭٭٭٭
اپوزیشن جماعتیں حکومت نہیں ایک دوسرے کیخلاف لانگ مارچ کریں گی: گورنر پنجاب
ویسے تو گورنر پنجاب نہایت سنجیدہ اور بردبار قسم کے شخص ہیں مگر ان کے بیانات سے لگتا ہے وہ حسِ مزاح بھی رکھتے ہیں۔ سیاسی آدمی ہونے کی وجہ سے سیاسی نوک جھونک سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ ویسے بھی بندہ زندہ دل پنجاب کا ہو اور بروقت جملے بازی کرنا نہ جانتا ہو، ایسا ہو نہیں سکتا۔ اس وقت ملک میں اپوزیشن کی جو حالت ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔
چپ ہوں تو قیامت ہوتی ہے
بولیں تو ستائے جاتے ہیں
وہ آپس میں ہی دست و گریباں ہے۔ اس پر کوئی بات کرے تو بھی مصیبت نہ کرے تو بھی مصیبت۔ اس قسم کی صورتحال میں فائدہ ظاہر ہے حکومت کو ہی ہونا ہے۔ اس تناظر میں گورنر پنجاب نے درست کہا ہے کہ اب اپوزیشن حکومت کے خلاف نہیں بلکہ اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف لانگ مارچ کریں گی۔ یہ موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں حقیقت کے قریب ترین تجزیہ ہے۔ نامعلوم کب شاید جلد ہی یہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کی ٹانگ توڑنے کی بجائے ایک بار پھر ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے کا عزم کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار نظر آئیں۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے اسی حوالے سے خوب کہا کہ جن کے آپ نے پیٹ پھاڑنے تھے، انہوں نے آپ کا شوکاز نوٹس پھاڑ دیا۔ اب اس چیرپھاڑ کے عمل سے اپوزیشن کا ہی مُردہ خراب ہوگا۔ حکومت تو اس باہمی جنگ و جدل سے لطف اٹھائے گی۔
٭٭٭٭٭