2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سید افتخار الحسن نے ایک لاکھ ایک ہزار چھ سو سترہ اور تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی نے اکسٹھ ہزار سات سو ستائیس ووٹ حاصل کیے تھے۔ تحریک انصاف نے اپنی جماعت کے ایک اور امیدوار عثمان خالد کو پارٹی ٹکٹ نہ دیا تو انہوں نے آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا اور ستاون ہزار ووٹ حاصل کئے۔ اگر تحریک انصاف کے ووٹ تقسیم نہ ہوتے تو وہ یہ سیٹ بھی جیت جاتی۔ مسلم لیگ نون طویل عرصہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکمران جماعت رہی ہے۔ ایک سابق آئی جی پولیس عبداللہ (فرضی نام ) جو آج بھی ماشاء اللہ حیات ہیں۔ انہوں نے راقم کو بتایا کہ جب میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے عبداللہ کو ایس پی گوجرانوالہ تعینات کیا تو اس کو کہا کہ یا تو ہمارے مخالفین کو "win over Them or crush them" یعنی ون اور کرلو یا کرش کر دو۔ 2017ء میں ایک معتبر اور مستند رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان بھر میں بجلی کی سب سے زیادہ چوری میاں نواز شریف کے لاہور کے انتخابی حلقے میں ہوتی ہے۔ مسلم لیگ نون نے مختلف حربے اور ہتھکنڈے استعمال کر کے پنجاب میں اپنا ووٹ بینک بنایا ہے۔ جی ٹی روڈ مسلم لیگ نون کا مضبوط انتخابی اور سیاسی قلعہ ہے۔ جی ٹی روڈ چونکہ سٹریٹجک نوعیت کی حامل ہے، اس لیے سکیورٹی کے ادارے اسے بہت اہمیت دیتے ہیں۔ پاکستان کے عوام فطری طور پر بڑے وفادار ثابت ہوئے ہیں اور وہ آسانی کے ساتھ اپنی وفاداریاں تبدیل نہیں کرتے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کو پنجاب میں اپنی جگہ بنانے کیلئے بائیس سال لگ گئے۔ وہ مسلم لیگ نواز کی کم اور پی پی پی کی زیادہ سیاسی سپیس حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اگر زندہ ہوتیں تو وہ کسی صورت عمران خان کو پنجاب میں اپنا ووٹ بینک چھیننے کا موقع نہ دیتیں۔ آصف علی زرداری پانچ سال پورے کرنے اور مال جمع کرنے میں مصروف رہے اور پارٹی کو وقت نہ دیا۔ عمران خان کو پنجاب میں پاؤں جمانے کا موقع مل گیا۔ پاکستان میں انتخابی سیاست کی روایت ہمیں بتاتی ہے کہ حکومت وقت ہمیشہ ضمنی انتخابات جیت جاتی ہے جب کہ عمران خان وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے باوجود ضمنی انتخابات ہار رہے ہیں۔ جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی بیوروکریسی اور پولیس میں مسلم لیگ نون اور پی پی پی کے وفادار دار آفیسر بیٹھے ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی جماعتوں نے عمران خان کیخلاف ’’سلیکٹڈ وزیر اعظم‘‘ کی مہم اتنے زور و شور سے چلائی ہے کہ ان کی انتخابی کامیابی عوام کی نظر میں مشکوک ہوچکی ہے۔ ووٹ کو عزت دو کی مہم کی وجہ سے ریاستی ادارے دباؤ کا شکار ہیں۔ این اے 75 ڈسکہ کی نشست مسلم لیگ نون کے رکن قومی اسمبلی کی وفات کے بعد خالی ہوئی تھی جس پر 19 مارچ کو ضمنی انتخاب کرایا گیا۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف کے لیڈروں نے اس نشست کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا۔ پولنگ ڈے پر افسوسناک بلکہ شرمناک واقعات ظہور پذیر ہوئے جو انتخابی تاریخ کا ایک نیا ریکارڈ تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بیس پولنگ اسٹیشنوں کے پولنگ افسروں کو ہی اغوا کر لیا گیا۔ دھاندلی کے ٹھوس شواہد سامنے آئے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا جسے تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا، جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ موجودہ حکومت نے عدالتوں میں جتنی اپیلیں کی ہیں، ان میں اکثریت کے فیصلے حکومت کیخلاف ہی ہوئے ہیں۔ 10 اپریل کو ڈسکہ میں ری پول ہوا جس میں مسلم لیگ نون کی امیدوار نوشین افتخار نے ایک لاکھ دس ہزار پچھتر ووٹ حاصل کیے جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی نے ترانوے ہزار چار سو تینتیس ووٹ حاصل کیے۔ 2018ء کے انتخابات کے حوالے سے مسلم لیگ نون کے ووٹ بینک میں دس ہزار جب کہ تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں 30 ہزار کا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ ون ٹو ون مقابلہ تھا اور دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے آزاد امیدوار میدان میں نہیں تھے۔ عوام سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے مایوس ہیں مگر ووٹ انہی جماعتوں کو دیتے ہیں۔ انتخابی سیاست کا یہ وہ ایشو ہے جس پر پاکستان کی کسی یونیورسٹی کو پی ایچ ڈی کرانے کی ضرورت ہے۔ مہنگائی بے روزگاری غربت اور قرضے بڑھتے جا رہے ہیں، گورننس کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ مسلم لیگ نون کے مرکزی لیڈروں پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات چل رہے ہیں، وہ جیل بھی کاٹ رہے ہیں، انکے بارے میں ہر روز الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں میگا کرپشن کے سکینڈل شائع ہو رہے ہیں۔ ان تمام حالات کے باوجود ڈسکہ کے دو لاکھ عوام نے دونوں سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ ڈالے ہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے عوام جو انتخابات میں ووٹ ڈالتے ہیں وہ شعور سے عاری ہو چکے ہیں۔ ان کو اپنے دوست اور دشمن کی تمیز ہی نہیں رہی۔ وہ انتخابی نشے میں مبتلا ہو چکے ہیں ، گرمی ہو یا سردی وہ جوش و خروش کے ساتھ عوام دشمنوں کو ووٹ ڈالنے کیلئے گھروں سے باہر نکلتے ہیں۔ عوام کے کردار کا یہ بحران ریاست اور سماج کو برباد کر رہا ہے۔ قومی دولت لوٹنے والوں کو بار بار ووٹ دینا نشہ یا بیماری نہیں تو اور کیا ہے۔ تاریخ کی صدا یہ ہے کہ عوام کو بیدار اور باشعور کیا جائے تاکہ وہ اپنے اور قوم کے مفاد میں بہتر فیصلے کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ سکیں۔ پاکستان کے عوام کو کوئی طاقت ووٹ ڈالنے کیلئے زبردستی گھروں سے نہیں نکال سکتی، وہ اپنی مرضی اور منشاء سے پولنگ اسٹیشن پر جاتے ہیں۔ آج پاکستان جس صورتحال کا شکار ہے، اسکی بڑی ذمہ داری خود عوام پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اگر عوام بیدار اور باشعور ہوتے تو وہ اتنی تعداد میں ووٹ کبھی ڈالنے کیلئے نہ جاتے اور اپنے گھروں میں رہ کر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے۔ عوام کے اس احتجاج اور دباؤ کی وجہ سے سیاسی جماعتیں شاید اپنی اصلاح کرنے پر مجبور ہو جاتیں۔ مسلم لیگ نون نے این اے 75 ڈسکہ چونکہ اپنی ہی نشست جیتی ہے، اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ یہ عوام کا ریفرنڈم ہے اور حکومت کو اس حلقے میں شکست کے بعد گھر چلے جانا چاہئے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ ضمنی انتخاب پُرامن ماحول میں ہوا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جب حکومتی ادارے اور الیکشن کمیشن چاہتے ہیں کہ انتخاب پُرامن ہو تو وہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور جب نہیں چاہتے تو پھر دھاندلی تشدد اور اغوا کے مناظر سامنے آتے ہیں۔ ڈسکہ میں انتخابی کامیابی کے بعد مسلم لیگ نون کے لیڈروں اور کارکنوں کے حوصلے بڑھ جائینگے، ان کو ریاستی اداروں کو دباؤ میں لانے کیلئے مزید طاقت ملے گی۔ اس طاقت کو وہ اپنے خلاف کرپشن کے الزامات ختم کرانے کیلئے استعمال کرینگے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ انتخابی سیاست میں سیاست دان عوام کے ووٹ لیکر ہی اقتدار میں آتے ہیں اور عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے لوٹ مار کا بازار گرم کرتے ہیں اور پھر جب وہ قانون کی گرفت میں آتے ہیں تو عوام کی طاقت استعمال کر کے قانون کی گرفت سے باہر نکل آتے ہیں۔ یہ تاریخی سچائی ثابت ہو چکی کہ پاکستان کے عوام جب تک بیدار اور باشعور نہیں ہوں گے صورتحال کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ اس سلسلے میں تاریخ کی سب سے بڑی گواہی 1970ء کے انتخابات ہیں جن میں عوام کا شعور اس حد تک بیدار ہو چکا تھا کہ انہوں نے روایتی موقع پرست اور مفاد پرست سیاستدانوں کے برج اُلٹ دئیے تھے اور قصور کا ایک امیدوار سائیکل پر انتخابی مہم چلا کر پانچ سو روپے خرچ کرکے انتخاب جیت گیا تھا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ موجودہ حالات عوام کے شعور کو بیدار کئے بغیر تبدیل نہیں کیے جا سکتے لہٰذا بیداری کی ملک گیر تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024