مکرمی! سخاوت وہ اعلیٰ انسانی وصف ہے جس کی حضور اکرمؐ نے بہت تعریف کی ہے۔ کشف المحجوبمیں ہمارے آقاؐ کا فرمان درج ہے کہ ’’سخی آدمی بہشت سے قریب اور دوزخ سے دور ہے اور بخیل آدمی دوزخ کے نزدیک اور بہشت سے دور ہے۔‘‘ اس کتاب میں دوسری جگہ حضرت علی ہجویریؒ فرماتے ہیں کہ ’’جو دو سخا صوفیہ کرام کی ایک صفت ہے۔ وہ اپنا نفس، عزت، اولاد اور املاک محبوب حقیقی کی راہ میں بے غرض خرچ کرتے ہیں اور حق تعالیٰ کی محبت سے غنی ہوتے ہی۔‘‘ عنوان کے تناظر میں اسلاف کے پاکیزہ کردار و عمل کا عکس اور ذہن کو نور بخشنے والا ایک واقعہ نقل کرتا ہوں۔ ہیشم بن عدی کہتے ہیں کہ تین افراد کا بیت اللہ میں اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ اس دور کا سب سے بڑا سخی کون ہے؟ایک نے کہا عبداللہ بن جعفرؓ ہیں۔ دوسرا بولا قیس بن سعد بن عبادہؓ ہیں۔ تیسرا بولا نہیں، عرابہؓ ہیں۔ ایک شخص عبداللہ بن جعفرؓ کے گھر گیا اور ان سے اللہ نام پر سوال کیا تو انہوں نے قیمتی گھوڑا، دیناروں سے بھری تھیلی‘ سیدنا علیؓ کی تلوار اور ریشمی چادریں دیدیں۔ قیس بن سعدؓ سوئے ہوئے تھے۔ ان کی لونڈی نے سوال کرنے والے کو سات سو دینار، ایک اونٹ اور ایک غلام دیدیا۔ عرابہؓ کا عقیدت مند بھی ان کے گھر جا پہنچا۔ اس وقت نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ عرابہؓ بوڑھے تھے اور نابینا ہو چکے تھے۔ نماز کیلئے گھر سے نکل رہے تھے۔ دو غلاموں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اس آدمی نے سوال کیا تو عرابہؓ نے اپنے دونوں ہاتھ غلاموں کے کندھوں سے ہٹائے۔ یہ دو غلام باقی ہیں، تم ان دونوں کو لے جائو، اب یہ تمہارے ہوگئے۔ یہ کہنے کے بعد آگے بڑھے۔ دیوار کا سہارا لیا اور اسے ٹٹولتے ہوئے مسجد کی طرف چل دیئے۔ اس شخص نے ان دونوں غلاموں کو ہمراہ لیا اور اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آگیا۔ تینوں دوستوں نے اپنے عطیے اور سلوک کا ذکر کیا اور ان تینوں کی تعریف کی۔ اب رہا یہ فیصلہ کہ سب سے بڑا سخی کون ہے؟ تو فیصلہ عرابہؓ کے حق میں ہوا کیونکہ انہوں نے تنگ دستی کے باوجود جو پایا، سب خرچ کر دیا۔(محمد اسلم چودھری، ابدالین سوسائٹی لاہور)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024