فضل محمود مرحوم اور عبدالحفیظ کاردار مرحوم دو ایسے نام ہیں جن کا ذکر کیے بغیر ہماری کرکٹ کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ ہماری کرکٹ پر ان دونوں کا رنگ بہت گہرا ہے۔ آج ملک میں جتنی کرکٹ کھیلی جا رہی ہے، ملکی کرکٹ میں جتنی ترقی نظر آتی ہے ان رنگوں کی بنیاد، ان آسائشوں کی بنیاد پاکستان کرکٹ کے ان عظیم خدمت گاروں نے ہی رکھی تھی۔ پاکستان کی ابتدائی کرکٹ ٹیم کے تمام کھلاڑی نہایت اہم اور معزز ہیں لیکن ان میں بھی کپتان عبد الحفیظ کاردار، فضل محمود اور حنیف محمد سب سے نمایاں ہیں۔ فضل محمود بلاشبہ پاکستان کرکٹ کے اولین سپر سٹار تھے۔ پاکستان کو ٹیسٹ کا درجہ دلانے میں فضل محمود کا کردار سب سے اہم ہے۔ یہ وہ کھلاڑی تھے جنہوں نے اپنی مرضی اور خواہش سے پاکستان میں رہنے اور پاکستان کی طرف سے کھیلنے کا انتخاب کیا، بھارت کی پیشکش کو ٹھکرانے کی وجہ سے فضل محمود کو اپنے پانچ بہترین برس قربان کرنا پڑے لیکن ان کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ پاکستان کے بجائے کسی اور ملک کی نمائندگی کریں۔ حالانکہ ان کے پاس بھارت کی طرف سے کھیلنے کی پیشکش موجود تھی دوسری طرف سے اس کی کوشش بھی کی گئی۔ انیس سو چھیالیس میں انگلینڈ کا دورہ کرنے والی انڈین ٹیم کو سیریز میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو اس شکست پر وجے ہزارے نے کہا کہ ہم فضل محمود کو لے کر نہیں گئے اس لیے ہار گئے۔
آج لوگوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ پاکستان کو ٹیسٹ کا درجہ دلانے میں فضل محمود کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ انیس سو اکاون میں پاکستان کے دورے پر آئی ایم سی سی کی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اس فتح کا مرکزی کردار نیلی آنکھوں والے فضل محمود تھے۔ ان کی کارکردگی کی بدولت ہی پاکستان کرکٹ کا رنگ دنیا کے نقشے پر بکھرا اور شائقینِ کرکٹ آج تک اس سے محظوظ ہو رہے ہیں۔
ایم سی سی کی شکست کے بعد پاکستان کو ٹیسٹ کھیلنے والی ٹیموں کا درجہ ملتا ہے، 1952 میں پاکستان کی ٹیم بھارت کا دورہ کرتی ہے اور لکھنؤ میں تاریخ کا پہلا ٹیسٹ میچ جیتنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ فضل محمود نے چورانوے رنز دے کر بارہ وکٹیں حاصل کیں۔ اس میچ میں نذر محمد کی سینچری بھی نہایت اہمیت رکھتی ہے۔1954 میں پاکستان نے انگلینڈ کو اوول کے مقام پر چت کیا تو یہاں بھی فضل کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ انہوں نے 99 رنز کے عوض بارہ بلے بازوں کو میدان بدر کیا۔ انگلینڈ کی اس ٹیم کو صدی کی بہترین ٹیم بھی کہا جاتا ہے۔ فضل یہیں نہیں رکتے کیا آسٹریلیا، کیا ویسٹ انڈیز دنیا کی بہترین ٹیموں کو زیر کرتے چلے گئے۔
اے ایچ کاردار تاریخ ساز کپتان اور پاکستان کرکٹ کے سب سے کامیاب ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ پاکستان کی ابتدائی کامیابیوں میں ان کی قیادت نے اہم کردار ادا کیا اور جب کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنے تو انہوں نے محکمہ جاتی کرکٹ شروع کروائی یہ وہ دور تھا جب کرکٹرز بدترین معاشی مسائل سے دوچار تھے۔ کاردار مرحوم نے ان حالات میں انقلابی اقدامات اٹھائے اور محکمہ جاتی کرکٹ شروع کروائی، کھلاڑیوں کو مستقل ملازمتیں ملیں، وہ معاشی تفکرات سے آزاد ہوئے، ان کا طرز زندگی بدلا۔ محکموں کی کرکٹ شروع ہونے کے بعد بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کرنے والے بہترین کھلاڑیوں کی طویل فہرست نظر آتی ہے۔ آج ملک میں کرکٹ کھیلی جا رہی ہے تو یہ فضل محمود کی فتح گر کارکردگی اور بعد میں اے ایچ کاردار مرحوم کی تعمیری و انقلابی قیادت کی مرہون منت ہے۔ بنیادی طور پر وہ کسی ہال آف فیم کے محتاج نہیں ہیں بلکہ کسی بھی ہال آف فیم میں ان عظیم کھلاڑیوں کی شمولیت سے اس ہال آف فیم کی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے کاپی پیسٹ عہدے داروں نے جن چھ کھلاڑیوں کو ہال آف فیم میں شامل کیا ہے ان تک کرکٹ ہی کاردار مرحوم اور فضل محمود کی وجہ سے پہنچی تھی، فضل محمود ایم سی سی کے خلاف وکٹیں نہ لیتے، وہ لکھنو میں بھارتی بلے بازوں کو ڈھیر نہ کرتے وہ اوول میں انگلش بیٹنگ لائن کو تہس نہس نہ کرتے تو کون کرکٹ کھیلتا، کرکٹ ان فتوحات کی وجہ سے مقبول ہوئی تھی۔ بعد میں اے ایچ کاردار محکموں کی کرکٹ شروع نہ کرواتے تو آج اس کھیل کا نام لینے والا بھی کوئی نہ ہوتا، محکموں کی ٹیموں کے بغیر ہاکی کا برا حال سب کے سامنے ہے۔ اے ایچ کاردار مرحوم اور فضل محمود مرحوم کو کسی آزاد پینل کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کسی پینل کی سفارشات کے بغیر حنیف محمد، ظہیر عباس، عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم اور وقار یونس کو ہال آف فیم میں شامل کیا جا سکتا ہے تو پھر اے ایچ کاردار اور فضل محمود کی خدمات کے سامنے کسی پینل کی کیا حیثیت ہے، کیا وقعت ہے۔ کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو ایک ماہ کی جتنے لاکھ تنخواہ وصول کرتے ہیں اس سے زیادہ فضل محمود مرحوم ایک میچ میں اوور کیا کرتے تھے۔ اس بورڈ کی بنیادوں میں ان عظیم کھلاڑیوں کا خون پسینہ ہے۔ انہوں نے خون پسینہ بہایا اور یہ کروڑوں ماہانہ تنخواہوں میں اڑا رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے حنیف محمد، ظہیر عباس، عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم اور وقار یونس کو ہال آف فیم میں شامل کیا ہے۔ رواں برس سمیت اب ہر سال مزید تین شخصیات اس فہرست میں شامل ہوتی رہیں گی۔ کرکٹ بورڈ ہال آف فیم میں شامل نئے کھلاڑیوں کا اعلان ہر سال سولہ اکتوبر کو کیا کرے گا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے مطابق ہال آف فیم میں کھلاڑیوں کی شمولیت کا فیصلہ آزاد پینل کرے گا۔
ہم نے اپنے ہال آف فیم کا فیصلہ اپنی کرکٹ کو دیکھتے ہوئے کرنا ہے اس سلسلہ میں کوئی ضرورت نہیں کہ ہم آئی سی سی کی طرف سے ہال آف فیم کا اعزاز حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کو ابتدائی طور پر اپنے ہال آف فیم میں شامل کریں۔ ہماری کرکٹ کا سارا فیم ان کھلاڑیوں کی بدولت ہے جنہوں نے مشکل اور نامساعد حالات میں پاکستان کے لیے کامیابیاں حاصل کیں اور سبز ہلالی پرچم کو بلند کیا ہے۔ ابتدائی طور پر ہال آف فیم میں کاردار مرحوم، فضل محمود مرحوم اور ان کے ساتھی کھلاڑیوں کو نظر انداز کرنا فاش غلطی ہے۔ اس فیصلے پر تعریف نہیں احتساب ہونا چاہیے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024