عورت مارچ اور متنازعہ نعرے
مکرمی : رواں برس عورت مارچ کے نعروں سے متعلق سوشل میڈیا پر بحث دیکھی گئی ۔ ہم میں ایسے کتنے ہی لوگوں کو جانتے ہیں جن کے والد ان کی والدہ کو گالیاں دینے میں زرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وہ بیٹے اور وہ بھائی بھی جن کا دل گھر کی خواتین سے ہونے والا سلوک دیکھ کر تڑپ جاتا ہے۔اسی طرح کے رویوں اور سلوک کے خلاف اگر خواتین باہر نکل کر اس کی مذمت کریں، اپنے لیے عزت اور برابری کا تقاضہ کریں تو ان کے لیے شرمناک جملے کسے جاتے ہیں۔جب خواتین اپنے لاپتہ شوہر بھائی یا بیٹوں کی بازیابی کا تقاضہ کرنے نکلتی ہیں تو عزت دار کہلاتی ہیں، جب یہ عورتیں تبدیلیوں کے خالی وعدوں پر لبیک کہتی ہیں تو ان خواتین کے ساتھ جھومتے ہوئے ان میں آپ کو ملک کا مستقبل روشن نظر آتا ہے لیکن اگر وہی خواتین اپنے حق کے لیے نکلیں تو عتاب کا نشانہ بنتی ہے۔خدا اور مذہب نے خواتین کو جو حقوق دے رکھے ہیں کیا انہیں یہ حقوق مل رہے ہیں؟ وہ خانگی معاملات ہوں، وراثتی یا مرضی کی شادی یا اپنی اولاد سے متعلق فیصلوں کا اختیار ہو کیا ہمارے معاشرے میں یہ حقوق عورتوں کو دیے جاتے ہیں؟ ایک مرد اپنی ماں، بہن، بیٹی یا بیوی کے لیے تو عزت کے نام پر کسی کا خون بھی بہا سکتا ہے مگر کسی اور کی ماں، بیٹی اور بیوی آخر کیوں قابل احترام نہیں؟ اپنے حقوق کے لیے باہر نکلنے والی عورتوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے والے تمام لوگ ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتا دیں کہ ایک عورت جب اکیلی گھر سے باہر نکلتی ہے بھلے کیسی ہی مجبوری یا ضرورت کیوں نہ ہو، وہ خود یا اس کی عزت کتنی محفوظ ہوتی ہے؟ مذہب نے خواتین کو جو حقوق دیے ہے ان کی رسائی میں آپ جیسے یا میرے جیسے لوگ مشکل بنے کھڑے ہیں اور اگر ایسے میں عورتیں اپنے حق کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں تو وہ کیا کہلائیں گی؟ ۔(بینش اخلاق، اسلام آباد )