’’جسٹس فار آصفہ‘‘ مقبول ٹوئٹر ٹرینڈ، سیاستدان، اداکار پھٹ پڑے، بھارتی سپریم کورٹ کا نوٹس
سرینگر/ نئی دہلی (آن لائن+ صباح نیوز) مقبوضہ کشمیر میں 8 سالہ معصوم آصفہ کیساتھ ہونیوالے لرزہ خیز واقعے کے حقائق سامنے آنے پر مقبوضہ کشمیر کی عوام کیساتھ ساتھ بھارت کے سیاستدان اور فنکار بھی سراپا احتجاج ہیں۔ جسٹس فار آصفہ کے نام سے ہیش ٹیگ بھارت میں ٹوئٹر پر مقبول ٹرینڈ بھی بن گیا جس پر سماجی کارکن اور عام شہری ملک میں جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات اور مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز جرائم کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔ کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے اپنے بیان میں کہا کہ بھارت خواتین کو وہ عزت نہیں دے پارہا جو دینی چاہئے، مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ دوسری جانب بالی وڈ کنگ شاہ رخ خان،سنجے دت، پریتی چوپڑا، انوشکا شرما اور دیگر اداکاروں نے بھی ننھی آصفہ پر ڈھائے گئے ظلم کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔اس کے علاوہ فرحان اختر، سونم کپور، انوکشا شرما، جاوید اختر، شیرش کندر، ریتیش دیشمکھ سمیت دیگر بالی ووڈ کی مشہور شخصیات نے سوشل میڈیا پر عوام سے درخواست کی وہ بھی آصفہ کیلئے انصاف کا مطالبہ کریں۔ پریانکا چوپڑا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا آصفہ کی طرح اور کتنے بچے مذہب اور سیاست کے نام پر قربان کیے جائیں گے؟ میں بہت شرمندہ ہوں اور یہ وقت سخت ایکشن لینے کا ہے۔ تنگ نظر بھارتی بھارتی ٹینس سٹار ثانیہ مرزا سے ناراض ہوگئے اور انہیں پاکستانی ہونے کا طعنہ دیدیا۔ انہوں نے ثانیہ مرزا کو مخاطب ہوتے ہوئے لکھا کہ وہ کس ملک کے بارے میں بات کر رہی ہیں کیونکہ انہوں نے تو ایک پاکستانی شخص سے شادی کر رکھی ہے، اس لیے وہ اب بھارتی نہیں۔ جب بھارتی ٹینس سٹار کو پاکستانی ہونے کا طعنہ دیا گیا تو ان سے خاموش رہا نہیں گیا اور انہوں نے بھی تنقید کرنے والوں کو کھری کھری سنا دیں۔ ثانیہ مرزا نے لکھا کہ وہ بھارتی ہیں اور بھارتی رہیں گی، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ انہوں نے صرف ایک شخص سے ہی شادی کی ہے اور انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ بھارتی نہیں ہیں۔ ثانیہ مرزا نے تنقید کرنے والوں کو کہا کہ وہ تنگ نظری سے ہٹ کر سوچیں، ساتھ ہی انہوں نے امید ظاہر کی کہ ایک دن سب لوگ کسی مذہبی تفریق کے بغیر انسانیت سے متعلق سوچیں گے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے کہا کہ ان کی حکومت ایک نیا قانون لائے گی جس میں معصوم بچوں کی عصمت دری میں ملوث افراد کے لئے موت کی سزا لازمی ہوگی تاکہ معصوم بچی کے بعد کوئی دوسری بچی درندگی کا شکار نہ بنے اور یہ اس نوعیت کا آخری واقعہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ وہ بچی کی وحشیانہ عصمت دری اور قتل میں ملوث افراد جنہوں نے انسانیت کو شرمسار کرنے والا جرم انجام دیا ہے،کو سخت سے سخت اور مثالی سزا دلائیں گی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے جموں کے بعض وکلا کی طرف سے پولیس کوایک کم سن لڑکی کی آبروریزی اور قتل میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف پولیس کو ایک مقامی عدالت میں فرد جرم دائر کرنے سے روکنے کے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کردیا ہے اور ازخود کیس کا جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے جس میں چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم خان ولکر ار جسٹس ڈی وائی چندراچد شامل تھے جمعہ کو جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کٹھوعہ بار ایسو سی ایشن کے نام اس معاملے پر ہڑتال پر جانے، آصفہ کے والدین کی طرف سے مقرر کردہ وکیل کو عدالت میں ان کی نمائندگی کرنے سے روکنے اور کٹھوعہ کی عدالت میں فردِ جرم دائر کرنے کے عمل میں رخنہ ڈالنے پر نوٹس جاری کر دیا۔ عدالتِ عظمی نے 19 اپریل تک جواب طلب کیا ہے۔ ملزمان کو حراست میں لیے جانے کے فوری بعد ہندو اکتا منچ اور ہندو اتحاد پلیٹ فارم نے بھارتی جھنڈے لئے مظاہرے کا آغاز کیا تھا اور پولیس سے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ان گروہوں کے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلقات ہیں اور بی جے پی کے قانون سازوں نے عوامی سطح پر ملزمان کا دفاع بھی کیا ہے۔ پیر کے روز کاٹھوا میں ہندو قانون سازوں نے پولیس کا مقامی عدالت میں تحقیقاتی رپورٹ جمع کرانے کے وقت ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی تحقیقات غلط ہیں اور حملے میں ملزمان کو سوچی سمجھی سازش کے تحت پھنسایا جارہا ہے۔ پولیس کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ جج کے گھر پہنچانے سے قبل اضافے دستے طلب کرنے پڑ گئے تھے۔ دو پولیس اہلکاروں سمیت 6 افراد پر آصفہ پر حملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد ہے جن میں سے ایک مبینہ طور پر آصفہ کی لاش کی تلاش میں بھی ملوث تھا جبکہ دیگر دو کو شواہد مٹاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔اس کیس پر ملک بھر سے ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر بی جے پی کے حامی ارکان جنسی ہراساں کرنے سے متعلق مذہب کی بنا پر اپنا موقف تبدیل کر رہے ہیں، پولیس کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ آصفہ کا ریپ اور قتل مسلمانوں کو علاقے سے نکالنے کے لیے کیا گیا تھا تاہم مقامی وکلاء اور بی جے پی کے حامیوں کے لیے ہندو ملزمان اور مسلمان متاثرین اس کیس میں آڑے آ رہے ہیں۔ بچی کے ریپ اور قتل کے واقعے نے علاقے میں کئی ہندو شہریوں کو بھی پریشان کیا ہے۔ کانگریس نے حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے میں سنجیدہ نہیں، مودی کی ’’بیٹی بچائو، بیٹی پڑھائو‘‘ سکیم اب ’’بیٹی چھپائو‘‘ مہم بن گئی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق کانگریس کے ترجمان کپل سبل نے پارٹی ہیڈکوارٹر پر خصوصی پریس کانفرنس میں کہا کہ عوام وزیراعظم سے خواتین پر بڑھتے ہوئے تشدد اور زیادتی کے جرائم پر موقف جاننا چاہتے ہیں۔ اترپردیش کے شہر انائو اور جموں کے کٹھوعہ میں زیادتی کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کانگریسی لیڈر نے کہا کہ وزیراعظم کو ملک کی فکر نہیں۔ انہوں نے نوٹ بندی سے عوام کو مصنوعات و خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) کے ذریعے چھوٹے تاجروںکو بھوکا رہنے پر مجبور کردیا۔