معیاری طبی تعلیم کیلئے سازگار ماحول کی ضرورت
محمد ریاض اختر
خاقان وحید خواجہ بتا رہے تھے کہ پاکستان اور پاکستان سے باہر طبی دنیا سے متعلق نئی ریسرچ کا ہر دور میں اور ہر سطح پر خیرمقدم کیا جاتا رہا۔ تحقیق کے دروازے کھلتے ہیں تو بیماریوں اور ان کے اسباب کی بابت جانکاری ہوتی ہے۔ خوش آئند پہلو یہ ہے کہ تحقیق کے گلاب اور اس کی مہکاروں کو ینگ ڈاکٹرز تک پہنچایا جا رہا ہے یہ سلسلہ قدیم ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹی ٹیویشنز کے سیکرٹری جنرل و چیئرمین راول انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ سائنسز کی حیثیت سے ان کا مزید کہنا تھا کہ پامی کی میزبانی میں سہ روزہ ایسوسی ایشن فار ایکسیلینس میڈیکل کانفرنس 2018ء کی کامیابی نے ان کے حوصلے بلند کر دئیے۔ اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں 29 سے 31 مارچ تک جاری رہنے والی کانفرنس میں پاکستان بھر سے طبی ماہرین کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ کانفرنس میں برطانیہ اور امریکہ سمیت دیگر ممالک کے مہمان طبی ماہرین کو شرکاء نے جس دل جمعی سے سنا اس سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ پاکستان میں صحت عامہ سے متعلق صورتحال میں مثبت تبدیلی آ رہی ہے ’’پامی‘‘ کے تحت ہونے والی کانفرنس کے معاونین میں نفیس میڈیکل کالج‘ آر آئی ایچ ایس اسلام آباد‘ حضرت بری سرکار میڈیکل کالج‘ ایبٹ آباد میڈیکل کالج‘ وطین میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج‘ ہمدرد میڈیکل کالج کراچی‘ لاہور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج اور شالیمار میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج نمایاں تھے۔ کانفرنس میں صدر پامی طارق سہیل سی ای او جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، ڈاکٹر غضنفر علی (ایبٹ آباد) محمد اویس الحاق‘ پرنسپل یونیورسٹی آف لاہور، پروفیسر ڈاکٹر محمد زمان‘ ڈاکٹر بابر نیازی اور ڈاکٹر عبدالقادرسمیت ممتاز شخصیات شریک رہیں۔ صدر پامی طارق سہیل نے اگلے سال مارچ 2019ء میں کانفرنس لاہور میں کرانے کا اعلان کیا ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے طبی اجتماع سے ایک دوسرے کے تجربات اور تحقیق سے فائدہ اٹھانے کا بھرپور موقع ملتا ہے۔ کانفرنس کی تجاویز اور سفارشات وزارت صحت اور پی ایم ڈی سی کے حکام تک پہنچائی جائیں گی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پامی ہر سطح پر میڈیکل تعلیم کے فروغ کے لئے موجود ہے۔ تاہم التماس صرف یہ ہے کہ صحت عامہ سے متعلق پالیسی سازی سے قبل تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر لی جائے تو اس سے مجموعی کارکردگی پر خوشگوار اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کانفرنس کے دوران مارگلہ میڈیکل‘ حضرت بری سرکار میڈیکل کالج‘ آر آئی ایچ ایس سمیت مختلف مقامات پر ورکشاپس ہوتی رہیں جن میں پاکستانی اور غیر ملکی مندوبین نے شرکاء سے خطاب کیا۔ اے ای ایم ای میڈیکل کانفرنس کی نمایاں مہمان شخصیات میں برطانیہ کی پروفیسر جانٹ گرانٹ Dr Janet Grant امریکہ کے جون نورچنی Dr John Norchini پروفیسر ڈاکٹر آرا ٹیکین Dr Ara Tekian اور کینیڈا کے پروفیسر ڈاکٹر باب وولرڈ Pr.Dr Bob Woollard شامل تھے۔ ایسوسی ایشن فار ایکسیلینس میڈیکل ایجوکیشن کی کانفرنس میں طبی ماہرین نے معیاری طبی تعلیم کے سازگار ماحول اور سہولیات کی فراہمی پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسوسی ایشن ان مقاصد کے حصول کیلئے کوشاں ہے راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر نے مریضوں کے محفوظ علاج کے طریقوں پر روشنی ڈالی۔ اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی لیفٹیننٹ جنرل ر سید محمد عمران مجید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکل کانفرنسیں شرکاء کیلئے مفید معلومات کا ذریعہ ثابت ہوتی ہیں۔ جن سے فیکلٹی ممبران کو ایک دوسرے کے کامیاب تجربات سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے اور میڈیکل سٹوڈنٹس کو اپنی طبی تعلیم و تحقیق کی کاوشوں کو اجاگر کرنے کا موقع ملتا ہے اور سٹوڈنٹس کو اپنی طبی تعلیم و تحقیق کی کاوشوں کو اجاگر کرنے کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ کانفرنس میں بڑی تعداد میں طبی ماہرین اور منتظمین کی شرکت سے اہم امور پر سیر حاصل بحث ہوئی ہے اور مستقبل کے لئے قابل عمل سفارشات مرتب کی گئی ہیں۔ پامی کے جنرل سیکرٹری خاقان وحید خواجہ نے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں قائم میڈیکل کالج ملک میں معیاری طبی تعلیم کے لئے کوشاں ہیں اور کانفرنس میں جہاں طبی تعلیم و تحقیق کے فروغ پر غور کیا گیا ہے وہاں پیشہ ورانہ مہارت میں اضافے کے لئے بھی متعدد اقدامات پر اتفاق رائے پیدا کیا گیا ہے۔ قبل ازیں امریکہ اور برطانیہ سے خصوصی طور پر کانفرنس میں شریک جان نار چینی اور جینٹ گرانٹ نے کانفرنس کو انتہائی مفید اور کارآمد قرار دیا ان کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کی سرگرمیوں سے ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ ہوتا ہے اور مستقبل میں بہتری کی راہیں متعین ہوتی ہیں آخری روز فرنزک میڈیسن ا ینڈ کریمینل جسٹس ہیلتھ کیئر سروسز اور معاضی ترقی‘ طبی تعلیم ریفارمز اور موجودہ صورتحال طبی تعلیم و کمیونیکیشن سکلز بچوں میں سانس کے امراض انفکیشن مریضوں کی آراء ریڈیالوجی ٹریننگ اور اسی نوعیت کے دیگر اہم امور کے بارے میں مقالے پیش کئے گئے۔