ٹیکس ایمنسٹی ا سکیم پر تنقید‘حکومت کا چیلنج
دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں ٹیکس کا نظام نافذ نہ ہو اور جہاں من حیث القوم وہاں کے شہری ٹیکس نہ دیتے ہوں کیوں کہ ٹیکس کے بغیر ملک چل نہیںسکتا۔ لہٰذا عوام کو چاہیئے کہ وہ ملک سے وفا داری کا ثبو ت دیتے ہوئے اپنے حصے کا ٹیکس ایمانداری سے قومی خزا نے میں جمع کرائیں۔ بصورت دیگر ملک عالمی سو د خور اداروں اور دیگر ممالک کا سہ لیس بن جاتا ہے جو کم و بیش ہمارا حال ہو چکا ہے۔ ہمارے ملک میں ہر حکومت متعد د اقداما ت اور نئی نئی اسکیموں کے ذریعے ٹیکس نیٹ ورک کو بڑھا نے کی کوشش کر تی رہی ہے لیکن کسی بھی دور حکومت میں ایسا نہیں ہوا کہ ٹیکس قابل تمام افراد یا اداروں نے ایمانداری سے ٹیکس ادا کیا ہو۔ مو جو دہ حکومت نے بھی حال ہی میں ایک نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجراء کیا ہے جس پر مخالفت اور حمایت میں تبصرے اور تجزیے کیے جا رہے ہیں جن کے جواب میں وزیر اعظم نے بلوچستان کے علا قے خا ران میںایک ترقیا قی منصو بے کی افتتاحی تقریب سے خطا ب میں اپنے ناقدین اور سیا سی مخالفین کو چیلنج کیا ہے کہ وہ انکی اعلان کر دہ نئی ایمنسٹی اسکیم کو نا قابل عمل قرار دے کر دکھائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اپو زیشن کو اس اسکیم پر اعتراضا ت ہیں تو انہیں دلائل کی صورت میں سامنے لانا چاہیئے اور صرف تنقید سے عوام کو گمراہ کرنے کی بجائے ایسی قابل عمل تجا ویز پیش کر نی چاہئیں جن سے اس اسکیم کی افادیت مزید نکھر کے سامنے آئے بیرون ملک سے پیسہ پاکستان واپس آئے اور ملکی خزا نے کی حالت بہتر ہو سکے۔ یہ بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے ایک سنہر ی موقع ہے کہ وہ اگر اپنے ملک سے واقعی مخلص ہیں تو وہ بیرون ملک پڑ اہوا پیسہ واپس لائیں اس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے کالے دھن کو قانونی شکل دیں اس ملک نے ان دولتمند وں کو سب کچھ دیا ہے اور انکی کمائی پر اس ملک کا بھی حق ہے۔ اگر چہ اس اسکیم پر انگلیاں اٹھا ئی جارہی ہیں تاہم ایسا رویہ اختیار کر نیوالے ملک سے محبت کاثبوت نہیں دے رہے ہیں بلکہ ان کے منفی طر ز عمل سے ملکی معیشت کو نقصا ن ہو رہا ہے۔ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے ملک میں پہلی مر تبہ ٹیکس اصلاحات کا انقلابی قدم اٹھا یا گیا۔ اس کا ایک مقصد ہے کہ ملک میں جو لو گ وسائل رکھتے ہیں ان کے کاروبار ہیں وہ ٹیکس ادا کریں۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انکم ٹیکس کی شرح کو آدھے سے بھی کم کر دیا گیا ہے بلاشبہ یہ ایک انقلا بی قدم ہے۔ امید ہے کہ یہ ایک قدم پاکستان کی معیشت کو وہ وسائل دے گا جو اس سے پہلے کبھی کسی نے نہیں دیئے اور اس کی کا میا بی کے نتیجے میں ہمیں دوسروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے سب متفق ہوں نا قد ین تنقید اس بات پر کر ر ہے ہیں کہ ٹیکس کے ریٹ کم کیے گئے جس نے تنقید کر نی ہے پہلے یہ بتایئے وہ ٹیکس کتنا ادا کر تا ہے۔حکومت کی طر ف سے لیے گئے بیرونی اور اندرونی قرضوں سے ہر شہری کا بال بال جکڑا ہوا ہے اگر ایسے میں غیر ممالک سے سر مایہ واپس آتا ہے اور ملک میں معیشت کا پہیہ چلتا ہے تو اس سے عوام کو بھی فائدہ ہوگا ۔ جہاں تک حکو مت کی کار کر دگی اور جمہوریت کے مستقبل کا تعلق ہے تو ہم بار ہا یہ با ت عرض کر چکے ہیں کہ ملک میں جمہوری نظام کو بر قرار رہنا چاہیے اور انتخا با ت مقرر ہ وقت پر ہی ہونے چا ہیئں یہ فوج بھی چاہتی ہے عوام بھی جبکہ سیا ستدانوں، تاجروں، صنعتکا روں ، بڑے کاروباری گروپوں اور انفرادی طور پر متمول شخصیا ت کو اپنے جملہ اثا ثے دیانتداری سے سامنے لانے چاہیئں اور تنقید کر نے والوں کو بیرون ملک سرمایہ جمع کر کے رکھنے اثا ثے بنا نے کے بجائے اپنے ملک کو ترجیح دینی چاہیے ملک کو لوٹ کر کھا نے والوں کے خلا ف قانون کو حرکت میں آنا چاہیے اور اس ضمن میں کسی سے بھی کوئی رعایت نہیں کرنی چاہیے موجو د ہ ٹیکس نظام کو عوام دوست ہو نا چاہیے جیسا کہ وزیر اعظم نے بھی کہا ہے کہ عام آدمی کی بجائے دولتمند وں کو ٹیکس دینا ہو گا اسے یقینی بنا نا حکومت کی بنیا دی ذمہ داری ہے۔