ای او بی آئی پنشنرز کا نوحہ!
محترم مبارک حسن گلشاد صدر ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹیٹیوشن (EOBI) نے گزشتہ دنوں روزنامہ نوائے وقت میں ایڈیٹر کی ڈاک میں شائع شدہ اپنے خط میں ادارہ ای او بی آئی کے تحت ضعیف العمری کی پنشن پانے والوں کی حالت زار کا ذکر کیا ہے۔ خط کیا ہے‘ ایک نوحہ ہے جسے پڑھ کر عوام کی فلاح و بہبود اور بہتری و خوشحالی کے نعروں اور دعوﺅں کی بنیاد پر حکومت کرنے والے .... اقتدار کی بے حسی اور سنگدلی سے عبارت ذہنیت آشکار ہو جاتی ہے۔ صدر ای او بی آئی نے اپنے خط میں تحریر کیا ہے کہ ای او بی آئی کے پنشنرز کم و بش چالیس برس اپنی جوانی کی تمام تر توانائیاں خرچ کرکے ملک کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ انہیں ملازمت سے سبکدوش ہونے پر ای او بی آئی کے تحت صرف 5250 روپے ماہوار پنشن دی جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”ایسے پنشنرز میں سے نوے فیصد لوگ ایسے ہیں جو بلڈ پریشر‘ شوگر‘ ٹی بی اور دل کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ اپنی پنشن کی رقم 5250 سے ان کی ادویات کا خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا جبکہ حکومت نے اس طرف کبھی توجہ نہیں دی۔“
حقائق کچھ اسی طرح ہیں کہ ملک کے مختلف نجی اور نیم سرکاری اداروں کے ملازمین کی ضعیف العمری کی پنشن کیلئے ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹیٹیوشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کے قواعدوضوابط کے تحت دوران ملازمت ہر ادارے کے مالکان کی طرف سے تمام ملازمین کی تنخواہوں کی مناسبت سے ایک مقررہ شرح کے مطابق رقم ہر ماہ انسٹیٹیوشن کو ادا ہوتی رہتی ہے۔ چالیس پینتالیس برسوں کی ملازمت کے بعد اپنے فرائض سے سبکدوش ہونے والوں کو ادارہ ای او بی آئی کی طرف سے ضعیف العمری کی پنشن ادا کی جاتی ہے۔ بلاشبہ شہریوں بالخصوص سینئر سٹیزن کی حیثیت سے ریٹائرڈ ملازمین کی ہر ضروریات کو پورا کرنا اور ان کی تمام تر فلاح و بہبود کے کام کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مگر ارباب حکومت نے اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنا اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے۔ ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹیٹیوشن براہ راست وفاقی حکومت کے ماتحت ہے۔ ملک کے کروڑوں ملازمین جن اداروں میں بھی اپنی زندگی کا بہترین حصہ ملازمتوں کی نذر کرتے ہیں‘ وہاں سے انسٹیٹیوشن کو باقاعدگی کے ساتھ ہر ملازم کیلئے مقررہ رقم ادا کی جاتی ہے جو اربوں کھربوں تک جا پہنچتی ہے۔یقینا ای او بی آئی کے ملک بھر میں کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے والے لاکھوں پنشنروں کی حالت زار کا عدالت عظمیٰ کی طرف سے نوٹس لینا ضروری سمجھا گیا ہے اور اس ادارے کی پنشن سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت شروع ہو چکی ہے۔ سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کے دوران ای او بی آئی کے اربوں روپے کے فنڈز کے حوالے سے بڑے بڑے لرزہ خیز انکشافات منظرعام پر آئے ہیں۔
5 مارچ 2018ءکو سپریم کورٹ کے جج مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ای او بی آئی پنشن کیس کی سماعت کی۔ اس کے دوران مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید کے ریمارکس پر عقدہ کھلا کہ ای او بی آئی کے اکاﺅنٹس سے ڈیڑھ ارب روپے نکالے گئے تھے۔ حکومت نے ابھی تک رقم ای او بی آئی کو واپس نہیں کی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ای او بی آئی کی رقوم سے بیت المال کو ایک ارب روپے دیئے گئے جبکہ زلزلہ سیلاب فنڈز میں پچاس کروڑ روپے دیئے گئے۔ اس حوالے سے عدالت عظمیٰ کے مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید نے نہ صرف برہمی کا اظہار کیا بلکہ یہ ریمارکس بھی دیئے کہ وفاقی حکومت نے لوٹ سیل لگا رکھی ہے۔ انہوں نے ای او بی آئی فنڈز سے خریدی گئی مہنگے داموں جائیدادیں واپس کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا کہ ای او بی آئی کے فنڈز سے وزیراعظم سیلاب فنڈ میں پچاس کروڑ روپے کیسے دیئے گئے؟ بزرگ پنشنرز کا پیسہ کسی اور کو کیوں دیا گیا؟ کیا پنشنرز کنٹرول لائن کے اس پار کے لوگ ہیں؟ کیا وفاق کو شرم آتی ہے؟ یہ استفسار تھا جناب جسٹس شیخ عظمت سعید کا ڈپٹی اٹارنی جنرل سے! انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ حکومت کو ہر صورت میں پیسہ واپس کرنا ہو گا۔ بزرگ پنشنرز کے ساتھ زیادتی برداشت نہیں کریں گے۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ بیت المال کی طرف سے جو لاءافسر عدالت عالیہ میں پیش ہوئے۔ ان سے مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید نے پوچھاکہ آپ عدالت عظمیٰ کے لائسنس یافتہ وکیل ہیں۔ جواب نفی میں آنے پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ سپریم کورٹ کے وکیل نہیں تو عدالت میں پیش کیسے ہو گئے؟ عدالت کے ساتھ مذاق کیوں کیا جارہا ہے؟ بیت المال نے ایک ارب روپے واپس کرنے کی بجائے لاءآفیسر بھیج دیا اور لاءافسر کا کیس سے لاعلم ہونا قابل قبول نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ حکمران طبقہ ای او بی آئی کے تباہ حال اور علاج معالجے کی سہولتوں سے محروم پنشنرزکی ان بھاری رقوم کو ذاتی اللوں تللوں کی نذر کرنے پر تلا ہوا ہے، جبکہ ان بھاری رقوم سے ان کے لئے ہر ضلعی مقام یا ڈویژنل سطح پر تمام سہولتوں سے آراستہ ہسپتالوں کا انتظام ہو سکتا ہے۔ پھر آج کے دور میں جبکہ اربابِ حکومت کی ہرجائز و ناجائز خواہش کی تکمیل اور ان کے مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر بنائے جانے والے قانون کی تائید کرنے والے جمہوری ایوانوں کے ارکان کی تنخواہوںمیں اضافہ پہ اضافہ ہوتا رہتا ہے انہیں اس غریب اور مفلوک الحال ملک میں ترقی یافتہ ممالک سے بڑھ کرزندگی گزارنے کی تمام تر سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ مگر ان اداروں میں بھی کبھی اس ملک کے غریب عوام، ضعیف العمر پنشنروں کی فلاح و بہبود اور ضروریات کے مطابق ان پنشنوں میں عصر حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں اضافے کی ہلکی سی بھی کبھی کوشش کی گئی نہ آواز اٹھائی گئی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ایوان اقتدار کے مکینوں کی طرف سے عوام کے خیر خواہ، انکے ہمدرد غمخوار اور خدمتگار ہونے کے دعوے محض سراب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہراہ حیات پر جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنے کی ہر سہولت سے محروم زندگی بسر کرنے والے ملک کے کروڑوں خاندانوں کا موجودہ میدان سیاست کے مراعات یافتہ طبقے پر سے اعتماد و اعتبار مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ اس طبقہ نے ہر موقع پر نعروں کی بنیاد پر مفلوک الحال عوام کو دھوکہ میں رکھا۔ اور عوام کو اپنی چرب زبانی کا شکار کر کے موقع ملتے ہی ملکی اور قومی وسائل سے جی بھر کے ہاتھ رنگے، اور ایسے میں انہوں نے عوام کو غریب تر کرنے کی خاطر ان کی روزی روٹی کمانے کی رہی سہی بچت کو بھی محدود سے محدود تر کر دیا تاکہ عوام اپنے مسائل میں اس قدر گھر جائیں کہ ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی سلب ہو جائے اور امور مملکت میں حصہ لینے کی دلچسپی ہی ان میں ختم ہو جائے۔ اقتدار کے ا یوانوں میں بوجوہ قابض مخصوص مفادات کا حامل طبقہ یقیناً سادہ لوح عوام کو کھوکھلے دعوﺅں سے بہلا کر اپنے مقاصد میں کامیاب ہوا۔ اور اربابِ اختیار کوایسے ہی ہر اس اقدام کے روا رکھنے میں کبھی کوئی دشواری نہ ہوئی۔ جس میں عوام کے حقوق پامال ہی نہیں بلکہ پوری طرح غصب ہوئے ہیں۔ ا گر ایسا نہ ہوتا تو کسی حکومت اور اس کے کسی بھی حکمران کو یہ جرا¿ت کیونکر ہو سکتی تھی کہ وہ سسک سسک کر زندگی گزارنے والے کئی مہلک بیماریوں میں مبتلا پنشنروں کو علاج معالجے اور زندگی میں آسانیاں اور سہولتوں کی فراہمی کی بجائے ان کی فلاح و بہبود کے لئے مخصوص زرِکثیر کی لوٹ سیل لگا کر دوسرے ایسے اداروں کو بانٹنے کا غیر آئینی اقدام اٹھائے۔ اور پھر اس عوامی زرکثیر کو اپنی منشاءاور مرضی کے مطابق اپنے حواریوں، حاشیہ داروں اور خوشامدیوں سمیت اپنے مفاد کے حصول کی خاطر استعمال میں لائے؟پاکستان کے بے نوا، فاقہ مست، مفلوک الحال، مفلس، قلاش مگر حصول پاکستان کے مقاصد کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کرنے کی امنگ رکھنے والے محب وطن کروڑوں خاندانوں سے عبارت بچوں ، بچیوں ، عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں کی دعائیں ہی رنگ لائی ہیں کہ پاکستان میں ایک طویل دور ستم پرور کے بندھن ٹوٹنے کے آثار ہویدا ہو گئے ہیں۔ آئینی اداروں نے انگڑائی لی ہے۔
آئین کو زبان مل گئی ہے۔ غالباً اس کے نتیجے میں جہاں گراں خواب عوام سنبھلنے لگے ہیں وہاں ایوانوں کے در وبام پر بھی لرزہ طاری ہے۔ حالات اس امر کی گواہی دے رہے ہیں کہ آئینی اداروں کی طرف سے آئین کی پاسداری ملک کے محروم اور کچلے ہوئے عوام کو اذنِ کلام دینے کا پیش خیمہ ہو گی۔ اور ای او بی آئی ایسے اداروں میں عوام کی خاطر جمع شدہ پیسہ انہی عوام کی کسمپرسی کا مداوا کرنے پر خرچ ہو گا اور ہوا کرے گا کیا ہی اچھا ہو اگر اسکا آغاز آئندہ مالی سال کے بجٹ ہی میں ای او بی آئی کے پنشنروں کی عصر حاضر کی ضرورتوں کے عین مطابق پنشن میں اضافے کی ابتداءسے ہو۔“