ترمیم میں اصلاح کو سازش قرار دینا مناسب نہیں
سینیٹر سسی پلیجو نے سینٹ میں تحریک پیش کی کہ 18 ویں آئینی ترمیم کو ختم کرنے سے متعلق کابینہ ڈویژن کے متنازعہ خط کو زیربحث لایا جائے جس میں صوبوں کو منتقل بعض وزارتوں اور ڈویژنوں کے امور کو واپس وفاق میں منتقل کرنے کے بارے میں کہا گیا ہے۔ خاتون محرک نے کہا کہ آئین سے انحراف کیا جا رہا ہے، اٹھارویں ترمیم کو لپیٹنے کی گھناﺅنی سازش کی جا رہی ہے۔
جس خط کو پیپلزپارٹی کی سینٹر اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کی سازش قرار دے رہی ہیں یہ خط 19 جنوری 2018ءکو جاری کیا گیا جس میں 10 جنوری کے کابینہ کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا تھا۔ چیئرمین سینٹ نے اس بنا پر تحریک کو خلاف ضابطہ قرار دے دیا کہ 19 جنوری کے بعد سینٹ کے دو اجلاس ہوچکے ہیں۔ یہ معاملہ ان اجلاسوں میں اٹھایا جانا چاہئے تھا۔ چیئرمین کی اس رولنگ پر ان کو اس کرسی پر بٹھانے والوں نے اجلاس سے واک آﺅٹ کر دیا۔ آئین میں ترمیم کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک دو درجن کے لگ بھگ ترامیم نہ ہو چکی ہوتیں۔ 18 ویں ترمیم میں اگر کچھ نامناسب ہے تو اسے درست کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسے سازش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آج سینٹ کے چیئرمین اپوزیشن کے منتخب کردہ ہیں۔ اپوزیشن کو تو ہاﺅس چلانے میں ان سے تعاون کرنا چاہئے مگر اسکے برعکس ان کےخلاف واک آﺅٹ کرکے ضابطہ کیخلاف تحریکیں لائی جا رہی ہیں۔