پاکستان کی سلامتی کی ضمانت
بھارت نے ایٹمی سٹرائیک میں پہل کرنے کا اعلان کر کے پاکستان کی سلامتی ایک دفعہ پھر خطرے میں ڈال دی ہے۔ پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ پیدائش سے بھی پہلے اسکی سلامتی خطرات میں گھر گئی ۔پاکستان کے دشمن اسی دن سے پاکستان کیخلاف اٹھ کھڑے ہوئے جس دن بر صغیر کے مسلمانوں نے پاکستان کا نام لیا۔ انکی حتی الوسع کوشش تھی کہ پاکستان معرض وجود میں ہی نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ان کی کو ششیں ناکام ہو گئیں۔ انکی دوسری کوشش تھی کہ اگر پاکستان بنتا بھی ہے تو یہ ایک ایسا لنگڑا لولا ملک ہو جو زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکے۔ اس مقصد میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے۔ انگریزوں کیساتھ ساز باز کر کے ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے پاکستان کو کچھ اہم حصوں سے محروم کر دیا جس سے پاکستان کے دشمنوں کو کشمیر تک راستہ مل گیا اور انہوں نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر لیا جو آج تک قائم ہے۔ جس دن سے پاکستان بھارت کے پیٹ سے نکلا ہے بھارت پاکستان کی سلامتی کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
بھارت پاکستان سے پانچ گنا بڑا ہے۔ سیاسی اور معاشی طور پر بھی پاکستان سے کئی گنا طاقتور ملک ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں دنیا کی تیسری بڑی فوج ہے ۔پوری دنیا میں ہتھیاروں کا پہلا بڑا خریدار ہے لیکن پھر بھی سمجھ نہیں آتی کہ وہ پاکستان سے خائف کیوںہے؟پاکستان نہ تو کسی وسعت کا خواہشمند ہے نہ ہی بھارت کی سلامتی کیلئے کوئی خطرہ ہے لیکن پھر بھی بھارت نہ تو ہتھیار جمع کرنے سے باز آتا ہے نہ پاکستان کو دھمکیاں دینے سے اور نہ ہی پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے سے ۔یہ پاکستان کا خوف تھا کہ بھارت روایتی ہتھیاروں کا انبار لگانے کے باوجود ایٹمی ہتھیار بنانے کی راہ پر گامزن ہوا۔ مقصد پاکستان کو پریشر میں لانا تھا۔
بھارت نے اپنا نیو کلیر پروگرام آزای سے ایک سال پہلے شروع کیا۔ یہ اگست 1946تھا کہ جواہر لعل نہرو نے بمبئی میں اپنی ایک تقریر کے دوران کہا : ’’ اگر دنیا میں ہم ایک معزز اور طاقتور قوم بن کر رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایٹمی توانائی ہر قیمت پر حاصل کرنا ہو گی ‘‘۔ لہٰذا بھارت نے بمبئی کے نزدیک بھا بھا اٹامک سنٹر قائم کیا اور اپنے نوجوان سائنسدانوں کو تربیت کیلئے امریکہ بھیجا۔ پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو پاکستان کا پہلا بڑا مسئلہ ملکی سا لمیت تھی ۔پاکستان فوج اسوقت تک مختلف مقامات پر بکھری ہوئی تھی اور دوسرا فوج کی تقسیم کی وجہ سے پاکستان فوج تنظیم نو کے عمل سے گزر رہی تھی۔ان حالات میں پاکستان کو ڈرانے کیلئے بھارت نے دو بر گیڈ فوج پنجاب کے بارڈر پر لا بٹھائی اور پھر اکتوبر1947میں کشمیر میں اپنی فوج بھیج کر کشمیر پر بزور طاقت قبضہ کر لیا۔ لہٰذاپاکستان کو شروع سے یہ احساس ہوا کہ بھارت ایک مکار ،منافق مگر طاقتور دشمن ہے۔ ہمارے نہ اتنے وسائل ہیں نہ ہتھیار نہ ہی پاکستان میں کوئی ہتھیاروں کی فیکٹری ہے۔لہٰذا ہمیں اپنے مکار اور طاقتور پڑوسی سے مقابلہ کرنے کیلئے فوجی طاقت کے علاوہ بھی اپنی طاقت بڑھانی ہو گی تو ایٹمی طاقت کا سوچا گیا۔ 1950کی دہائی میں ڈاکٹر عبدالسلام یورپ سے تعلیم حاصل کر کے پاکستان آیا تو ایٹمی ریسرچ سنٹر بنانے کا پروگرام بنایا۔ لہٰذا کینیڈا کی مدد سے PINSTECH کے نام سے اسلام آباد کے نزدیک ریسرچ کیلئے ایک سنٹر قائم کیا گیا۔یادر رہے کہ یہ ایک محض ریسرچ سنٹر تھا جس میں کسی قسم کا ایٹمی مواد نہیں بن سکتا تھا۔
1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران یہ خبر پہنچی کہ بھارت ایٹم بم بنانے کی کوشش کررہا ہے تو ذوالفقار علی بھٹو جو اسوقت ایوب خان کی کیبنٹ میں ایک منسٹر تھا نے اعلان کیا کہ :’’اگر بھارت ایٹم بم بناتا ہے تو ہم گھاس کھا لیں گے ۔پتے کھا لیں گے بھوکے رہ لیں گے لیکن اپنا ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘‘۔یہ اعلان ہمارے ایٹمی پروگرام کی بنیاد بنا ۔ سن 1971پاکستان کی تاریخ کا منحوس سال ثابت ہوا کیونکہ 16دسمبر کو ڈھاکہ پلٹن میدان میں پاکستان فوج کو اپنے ازلی دشمن بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ذلت برداشت کرنا پڑی۔ساتھ ہی پاکستان دو لخت ہو گیا۔مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں بدل گیا۔ہتھیار ڈالنے کی ذلت اور مشرقی پاکستان سے محرومیت دو ایسے صدمات تھے جو قوم کیلئے برداشت کرنا مشکل ہو گئے۔ پوری قوم پر موت کی طرح مایوسی چھا گئی۔اسوقت کے صدر جناب ذوالفقار علی بھٹو نے حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا فیصلہ کیا۔ بھارت کی فوجی برتری سے نبٹنے کا یہ واحد ذریعہ تھا ۔ لہٰذا بھٹو صاحب نے جنوری 1972میں ملتان میں ملک کے مشہور سائنسدانوں اور انجینئرز کی میٹنگ بلائی جس میں ایٹمی توانائی حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔کہوٹہ میں کام کی ابتدا کی گئی۔ 1974 میں بھارت نے پوکھران کے مقام پر ایٹمی دھماکہ کر کے برصغیر کو ایٹمی دوڑ کی راہ پر ڈال دیا۔اس دھماکے نے پاکستان کو مجبور کردیا کہ وہ اپنی سلامتی کیلئے جلد سے جلد ایٹمی توانائی حاصل کرے۔ 1975میں محترم ڈاکٹر عبدالقدیر خان یورپ سے واپس آئے ۔وہ بنیادی طور پر تو ایک’’ میٹرلا جسٹ‘‘ تھے لیکن جرمنی اور نیدر لینڈ میں ایٹمی شعبے میں کام کر چکے تھے۔وہ وطن واپس آتے ہوئے ’’ سنٹر یفیوج ‘‘ کے ڈیزائن اورکچھ اہم کمپنیوں کے رابطے ساتھ لائے ۔جناب بھٹو صاحب نے انہیںکہوٹہ لیبارٹریز کا ہیڈ مقرر کر کے ضرورت کے تمام وسائل مہیا کر دئیے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے خفیہ طور پر اپنے کام پر توجہ دی۔ یورپ میں اپنے رابطوں سے فائدہ اٹھایا۔ مختلف کمپنیوں سے خفیہ طور پر پرزہ جات خریدے اور بالآخر پاکستان کو ایٹم بم دینے میں کامیاب ہو گئے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 1977-78 میں پہلی ایٹم بم ڈیوائس تیار ہو چکی تھی لیکن کچھ لوگوں کے خیال میں پاکستان کو کامیابی 1984میں ملی اور بم کا ’’کولڈ ٹیسٹ ‘‘ کیا گیا۔1998کو بھارت نے چھ بم دھماکے کئے تو اسکے جواب میں پاکستان نے 28مئی 1998 کو پانچ دھماکے اور30مئی کو ایک اور دھماکہ کر کے بھارت کا حساب چکا دیا۔ تو یوں پاکستان مسلمان ممالک میں پہلی اور دنیا میں ساتویں ایٹمی پاور بن گیا۔
1987میں پاکستان کو پتہ چلا کہ بھارت پرتھوی سیریز کے میزائل بنا رہا ہے۔ بھارت کے جواب میں پاکستان نے اپنا میزائل پروگرام شروع کیا جس میں شاندار کا میابی حاصل کی جس میں شارٹ رینج سے لیکر لانگ رینج تک کے میزائل تیار کر لئے ۔ ان سیریز میں زمین ، ہوا اور سمندر سے ہر طرف مار کرنیوالے بیلسٹک اور کروز میزائل بنا لئے جنہیں مختلف مقامات پر کوڈ نمبرز دے کر سٹور کیا گیا ہے۔ مکمل سیکورٹی کا خصوصی بندوبست کیا گیا ہے تا کہ ایٹمی مواد کی کوئی چیز طالبان یا کسی غیر ذمہ دار شخص کے ہاتھ نہ لگے۔ایٹمی مواد کی حفاظت کیلئے دس ہزار خصوصی سٹر یٹیجک فورس تیار کی گئی ہے جس میں انٹلیجنس کے لوگ بھی شامل ہیں۔ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام بہت جدید نوعیت کا ہے جو بھارت کے کسی بھی حصے کو نشانہ بنا سکتاہے۔پاکستان کو اپنے ایٹمی پروگرام پر فخر ہے جو پاکستان کی سلامتی کی ضمانت ہے۔