وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات میں کلبھوشن کے معاملہ میں کوئی دبائو قبول نہ کرنے پر اتفاق
وزیراعظم محمد نوازشریف سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملاقات کے دوران گزشتہ روز اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ پاکستان کی سالمیت کیخلاف سازشوں میں سرگرم عمل بھارتی دہشت گرد کلبھوشن کی سزائے موت کے حوالے سے کوئی دبائو قبول نہیں کیا جائیگا۔ اس ملاقات میں پاک فوج کے پیشہ ورانہ امور اور موجودہ سرحدی و سلامتی کی صورتحال پر تبادلۂ خیال ہوا۔ آرمی چیف نے وزیراعظم کو اپریشن ردالفساد کے حوالے سے بریفنگ دی۔ وزیراعظم نے اس اپریشن میں ہونیوالی کامیابیوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپریشن میں فوجی جوانوں کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ آرمی چیف نے کلبھوش یادیو کے معاملہ پر بھی وزیراعظم کو اعتماد میں لیا اور فیصلہ کیا گیا کہ کلبھوشن کے معاملہ پر کسی کا بھی دبائو قبول نہیں کیا جائیگا۔ ذرائع کے مطابق آرمی چیف نے برطانیہ کی حالیہ دورے میں ہونیوالی ملاقاتوں اور دوسرے اہم امور سے متعلق وزیراعظم کو اعتماد میں لیا۔ انگریزی اخبار دی نیشن کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم سے آرمی چیف جنرل باجوہ اور وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی ملاقاتوں کے دوران بھارت اور افغانستان کے ساتھ کشیدگی اور پاک فوج کی تیاریوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
پاکستان کی سالمیت کیخلاف سرگرم عمل بھارتی مشینری کے ایک اہم کل پرزے کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور سزائے موت پر بھارت کا تشویش میں مبتلا ہونا اور پاکستان کے شکنجے سے اسے آزادی دلانے کیلئے پاکستان کو انصاف کے تقاضوں کے حوالے سے دنیا میں بدنام کرنے سمیت کوئی بھی ہتھکنڈہ استعمال کرنا غیرمتوقع ہرگز نہیں کیونکہ کلبھوشن کی گرفتاری‘ اسکے اعترافی بیانات اور انکی بنیاد پر اسکی سزائے موت پر بھارت کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف کی جانیوالی اپنی ساری سازشیں دنیا کے سامنے بے نقاب ہونے کا اندیشہ لاحق ہوگیا ہے اس لئے اب اسکی ہر ممکن کوشش ہوگی کہ وہ اپنا سفارتی محاذ اور بیرونی دنیا میں موجود اپنے لابیسٹوں کو سرگرم کرکے پاکستان پر ہر قسم کے الزامات کی بوچھاڑ کرے تاکہ دنیا کی توجہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم سے ہٹ کر پاکستان پر مرکوز ہو جائے اور اسے سخت عالمی دبائو کے ذریعے کلبھوشن کو آزاد کرنے اور بھارت واپس بھجوانے پر مجبور کردیا جائے۔ اسی تناظر میں بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج نے کلبھوشن کو بھارت کا بیٹا قرار دیا اور اسکی زندگی کے تحفظ کیلئے کسی بھی حد تک جانے کا اعلان کیا۔ اس تناظر میں کلبھوشن کا معاملہ بلاشبہ ہمارے لئے بھی ایک چیلنج بن چکا ہے جس کی سزائے موت پر فی الفور عملدرآمد کا اس وقت پاکستان بھر سے رائے عامہ ہموار کرنیوالے حلقوں اور قومی سیاسی اور دینی قائدین کی جانب سے تقاضا کیا جارہا ہے جبکہ دنیا بھر میں مقیم کشمیری عوام اور انکے قائدین کی جانب سے بھی کلبھوشن کی سزا پر اسی تناظر میں فوری عملدرآمد کا تقاضا ہورہا ہے کہ اس سے مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط و جارحیت کیخلاف ان کا کیس مضبوط ہوتا ہے اور وہ اقوام عالم کو بھارتی مکروہ چہرہ دکھا کر کشمیر کی بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے اپنے موقف پر قائل کر سکتے ہیں۔
کلبھوشن کی گزشتہ سال مارچ میں گرفتاری کے بعد بدقسمتی سے اسکے معاملہ میں حکومت کی جانب سے باضابطہ طور پر کسی سخت ردعمل کا اظہار نہ کیا گیا اور وزیراعظم کی سطح پر اس کا نام لینے سے بھی گریز کیا جاتا رہا تاہم کلبھوشن کے اعترافی بیان اور اسکی نشاندہی پر بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے شواہد ملنے پر دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے بھارت کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کیخلاف ایک ڈوزیئر تیار کرکے اقوام متحدہ اور امریکی دفتر خارجہ کے حوالے کردیا اس طرح کلبھوشن کے کورٹ مارشل کا فیصلہ سامنے آنے سے قبل ہی عالمی اداروں اور قیادتوں کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف اسکی مذموم سرگرمیوں کا علم ہو چکا تھا۔ چنانچہ اسکی سزائے موت کے فیصلہ پر عالمی قیادتوں اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی جانب سے پاکستان مخالف ردعمل کا اظہار سامنے نہیں آسکا‘ تاہم بھارتی حکومت‘ اپوزیشن لیڈران اور میڈیا کی جانب سے کلبھوشن کے معاملہ پر چائے کے کپ میں طوفان اٹھایا جاتا نظر آتا ہے جو درحقیقت بھارتی جرائم چھپانے کی کوشش ہے۔ بھارت میں تعینات پاکستان ہائی کمشنر عبدالباسط نے بھی گزشتہ روز ایک بھارتی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اسی تناظر میں باور کرایا کہ کلبھوشن کیخلاف ہمارے پاس کافی ثبوت ہیں جس سے بھارت بھی آگاہ ہے جبکہ ہم اقوام متحدہ کو پہلے ہی ڈوزیئر دے چکے ہیں اور نئی دہلی کی حکومت سے بھی کلبھوشن کے حوالے سے معلومات شیئر کی گئیں اس لئے اسکی سزا کیخلاف بھارتی واویلا بے معنی ہے جبکہ فوجی عدالت میں اس کا کورٹ مارشل شفاف اور قانون کے مطابق ہوا ہے۔
کلبھوشن کے معاملہ میں اگر یہی موقف حکومت کی جانب سے باضابطہ طور پر اختیار کیا جائے تو اس سے کلبھوشن کی سزا پر عملدرآمد کیلئے ملک کے سول سیاسی اور عسکری ادارے ایک صفحے پر نظر آئینگے جس سے کلبھوشن کی سزا کیخلاف کسی بھی دبائو سے عہدہ برأ ہونا آسان ہوگا۔ اس کا بہترین موقع وفاقی کابینہ کا گزشتہ روز کا اجلاس تھا جس میں وزیراعظم کی زیرصدارت دیگر تمام قومی امور پر تو مفصل تبادلہ خیال کیا گیا مگر کلبھوشن کی پاکستان مخالف سرگرمیوں اور اسکی سزائے موت کے حوالے سے کابینہ کے اجلاس میں ایک لفظ بھی ادا نہ کیا گیا۔ اجلاس کے بعد اطلاعات و نشریات کی وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے پریس بریفنگ میں خود اس امر کی تصدیق کی کہ اجلاس میں کلبھوشن کے معاملہ پر کسی قسم کا غور نہیں ہوا تاہم کسی ملک کی دھمکی ہمیں قبول نہیں ہوگی۔ اگر یہی بات خود وزیراعظم نوازشریف کابینہ کے اجلاس میں اپنی زبان سے ادا کردیتے جس پر ان سے آرمی چیف کی ملاقات کے دوران اتفاق بھی ہوا ہے تو اس سے بھارت کو کلبھوشن کے معاملہ میں کوئی دبائو قبول نہ کرنے کا ٹھوس پیغام حکومت کی سطح پر باضابطہ طور پر مل جاتا اور اسے یہ بھی کان ہوجاتے کہ اس ایشو پر اقوام عالم میں اسکی دال نہیں گلنے والی۔
اگر تو یہ معمولی سی بھی توقع ہو کہ بھارت اپنے جاسوس دہشت گرد کلبھوشن کی بے نقاب ہونیوالی پاکستان مخالف سرگرمیوں پر دبائو میں آکر پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کیلئے معاملہ فہمی سے کام لے گا تو حکمرانوں کی جانب سے اسکے ساتھ دوستی اور تجارت کی خواہش کے رسمی اظہار میں کوئی مضائقہ نہیں مگر بھارت تو اپنی فطرت کے عین مطابق پاکستان کی سالمیت پر وار کرنے کی ہی مذموم سازشوں میں اعلانیہ مصروف ہے اور مقبوضہ کشمیر میں استصواب کے حق کیلئے اٹھنے والی کشمیریوں کی آواز کو دبانے کیلئے ایسے مذموم ہتھکنڈے اختیار کررہا ہے کہ اسکے کٹھ پتلی سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ بھارت تباہی کی طرف جارہا ہے اس لئے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے امریکی ثالثی کرائی جائے۔ ایسے بدفطرت اور بدطینیت بھارت سے بھلا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہم اسکے بھیجے دہشت گرد کلبھوشن کے ساتھ کسی قسم کا نرم رویہ اختیار کرینگے تو وہ ہمارے ساتھ بغض و عناد اور دشمنی کی فطرت سے رجوع کرلے گا۔ بھارت سے ایسی توقع رکھنا خود کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں۔
اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ کلبھوشن کی سزا پر وزیراعظم کی سطح پر وہی ٹھوس موقف اختیار کرکے باضابطہ طور پر اس کا اعلان بھی کیا جائے جو وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات میں سامنے آیا ہے۔ اسی طرح کلبھوشن کی سزائے موت پر عملدرآمد کے تمام قانونی تقاضے بھی بلاتاخیر کرلئے جائیں تاکہ قوم ’’خس کم جہاں پاک‘‘ والا مژدہ سن سکے۔