میں نے اتنی منفرد مختلف اور ممتاز تخلیقی جذبوں کیفیتوں اور لفظوں سے بھری ہوئی کتاب نہیں دیکھی۔ نامور شاعرہ اور دانشور پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف کی ان دیکھے منظروں سے بھی شاندار شاعری پر مشتمل کتاب میں نے دیکھی۔
کتاب کا نام ہی میرے لیے حیرت انگیز احساس کے آس پاس تڑپنے لگتا ہے۔ ”معانی سے زیادہ“ یہ کیا تخیل ہے۔ میں نے معانی کو چھوڑ دیا اور ”زیادہ“ پر غور کرنے لگ گیا اور ہار گیا۔ پھر میں نے سوچا کہ کیا لکھوں تو میرے ذہن میں صرف ایک بات آئی ”معانی سے کم“ میں اپنی کم مائیگیوں تخلیقی نارسائیوں اور گمشدہ حسرتوں کو نجیبہ کے انوکھے اور ان دیکھے تخیل اور تخلیقی تدبر کی چوکھٹ پر نچھاور کرتا ہوں۔ وہ بہت بڑی خاتون ہے۔ بڑی سے بھی بڑی۔ اور میں ان کا ایک چھوٹا سا مداح ہوں۔ چھوٹے سے بھی چھوٹا۔
نجیبہ کی ایک غزل دیکھئے: جس کے ایک شعر میں سے اس نے اپنی کتاب کے لیے عنوان انتخاب کیاہے۔ معانی سے زیادہ۔
الفاظ کے امکان نہانی سے زیادہ
کہنی ہے کوئی بات معانی سے زیادہ
اک اور حقیقت ہے پس و پیش حقیقت
اک اور کہانی ہے کہانی سے زیادہ
اک سبز سی چھاﺅں ہے خیالوں کی ڈگر پر
گنبد سا کوئی عرش مکانی سے زیادہ
اک رات کی شدت ہے مرے عرصہ جاں میں
امکان کے ہر دور زمانی سے زیادہ
حضرت علیؓ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے جسم پر بالوں کی تعداد کتنی ہے۔ انہوں نے فرمایا میں بتا تو دوں گا پھر اس کی تصدیق کیسے ہو گی اور کون کرے گا؟ کسی صوفی سے پوچھا گیا تھا کہ ستاروں کی تعداد کتنی ہے۔ اس نے انگلیوں پر گن کر بتا دیا کہ چالیس ہزار ارب سے زیادہ ہے۔ پھر پوچھا گیا کہ اس کی تصدیق کیسے کی جائے گی تو صوفی صاحب نے بتایا یہ تمہارا کام ہے گن لو اور حساب کر کے بتا دو۔
شیخ رشید احمد نے کہا کہ نواز شریف کسی آدمی کو میرٹ پر کسی پوسٹ کے لیے مقرر نہیں کرتے۔
یہ خاص رنگ ہے شیخ رشید کا کہ وہ بہت دبنگ بے باکی اور بہادری سے بات کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے وہ تنہا لیڈر ہیں جو نفع و نقصان سے بے نیاز ہو کر بات کرتا ہے۔
تب میں گارڈن کالج راولپنڈی میں پڑھاتا تھا اور شیخ رشید احمد وہاں پڑھتے تھے۔ وہ بہت بے نیاز اور بے دھڑک سٹوڈنٹ لیڈر تھے۔ شاید شیخ رشید کالج کے آخری شاندار اور بہادر صدر تھے۔ اس کے بعد سٹوڈنٹس یونین پر پابندی لگا دی گئی تھی اور اس کی ایک وجہ شیخ رشید کی دلیرانہ سرگرمیاں بھی تھیں۔
شیخ رشید ٹی وی چینلز کے پسندیدہ او رمقبول بولنے والے ہیں۔ وہ تقریباً ہر روز کسی نہ کسی چینل پر بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لوگ انہیں دل و جان سے سنتے ہیں اور مزہ لیتے ہیں۔ نواز شریف کے لیے اتنے دھڑلے سے کوئی دوسرا بات نہیں کر سکتا۔
شاید واحد ادبی اخبار ہے بجنگ آمد جو بڑی باقاعدگی سے نامور شاعر اور دانشور پروفیسر ڈاکٹر اختر شمار شائع کرتے ہیں۔ رسالے کا نام بجنگ آمد ہے۔ تنگ آمد کے بغیر بجنگ آمد کا مظاہرہ بہت غیرمعمولی ہوتا ہے۔ زبردست ادبی خبریں اور ادبی تحریریں پڑھنے کو ملتی ہے۔ ہمیشہ ہر پرچے میں ہر کسی کے لئے کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے جو وہ پڑھنا چاہتا ہے۔
تازہ بجنگ آمد میں بہت کچھ ہے مگر برادرم خاور سلیم ہاشمی کی تحریر بہت تاثیر سے بھری ہوئی ہے۔ یہ تحریر اختر شمار نے لکھی ہے مگر گفتگو خاور سلیم ہاشمی نے کی۔ ٹائٹل میں خاور کی بہت گریس فل تصویر ہے۔ اس کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ کانٹوں میں گھرا گلاب سا شخص وہ وکھری ٹائپ کا ایک اجلا بے باک اور سیلف میڈ صحافی ہے۔ اس رسالے کی دوسری تحریر نامور تخلیقی شخصیت شعیب بن عزیز کی ہے جو اس نے نامور شاعر اور فنکار منصور آفاق کے لئے لکھی ہے جس کا عنوان ہے ”منصور آفاق- بوتل میں بند جن“ میری پہلی خوشی یہ ہے کہ نثر میں شعیب کی کوئی تخلیقی تحریر دیکھنے کو ملی ہے۔ دوسری بات ہے کہ منصور آفاق بوتل میں بند جن اب نہیں ہے۔ وہ ایک بوتل سے نکل کر دوسری بوتل میں داخل ہو گیا ہے۔ کسی میں ہمت ہے تو وہاں سے اسے نکال کے دکھائے۔ وہ ایک منفرد معروف شاعر ہے۔ ان دیکھی ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہتا ہے اور دیکھی ہوئی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھتا ہے۔ میرا اعزاز یہ ہے کہ میانوالی میں میرے قیام کے دوران اس نے ادبی جدوجہد کا آغاز کیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے عالمی مسافتیں اس نے طے کیں مگر ابھی اس کی آنکھوں میں کئی راستوں کی طولانیاں اور جولانیاں مچل رہی ہوتی ہیں۔ وہ ادبی سیاست بھی کرتا ہے اور دوستوں کو سیاستدان بنا کے چھوڑتا ہے۔
اگر منصور آفاق چاہتا تو اپنے جانثار دوست افضل عاجز کے ترنم کو بہت دور کی فضا¶ں سے آشنا کر سکتا تھا۔ یہ میرا شکوہ ہے ورنہ افضل عاجز کی عاشقانہ عاجزی اس پر اب بھی نثار ہوتی رہتی ہے۔ عاجزی وہ ہوتی ہے جو عاجزی لگتی نہیں ہے۔
محبوب و مرحوم دوست حسین شاد کے لئے اختر شمار کی تحریر ”حسین شاردا وین“ اچھی سے اور مجھے تیمور اختر کی تحریر ”سماجات و مزاحیات“ بہت اچھی لگی۔ ایک ٹکڑا حاضر خدمت ہے۔
ایک صاحب نے مشفق خواجہ سے کہا ہری چند اختر نے دوزخ کو مذکر باندھا ہوا ہے۔ خواجہ صاحب بولے کہ ہر دو صورتوں میں ہمیں اس سے پناہ مانگنا چاہئے۔ میرا خیال ہے کہ دوزخ مو¿نث ہے کیونکہ لوگ عورت کی طرح اس کے عذاب سے واقف ہوتے ہوئے بھی اس کے حصول میں لگے رہتے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38