مقبوضہ کشمیر میں الیکشن ڈرامہ؟
مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبد اللہ نے کہا ہے کہ کشمیر میں پتھراو¿ کرنے والے نوجوان اپنے وطن کے لیے لڑ رہے ہیں۔ فاروق عبداللہ بھارت نواز کشمیری راہ نما تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کے اس بیان پر بھارت میں شدید رد عمل سامنے آیا ۔ نریندر مودی نے گزشتہ ہفتے کشمیر میں ایک سرنگ کا افتتاح کیا تھا ۔ اس موقع پر مودی نے کہا تھا کہ ”کشمیری نوجوان یہ طے کریں کہ وہ سیاحت چاہتے ہیں یا دہشت گردی۔۔۔۔! ©“فا روق عبداللہ نے مودی کے اس بیان پر کہاکہ ”جو پتھر پھینک رہے ہیں انھیں سیاحت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، وہ اپنے وطن کے لیے پتھر پھینک رہے ہیں۔ اسے سمجھنا ضروری ہے۔“ ہم فاروق عبداللہ کے بیان کو یہیں چھوڑتے ہیںاورایک اہم واقعے کی طرف آتے ہیں۔ یہ واقعہ دو اپریل کا ہے۔ٹھیک اس دن کا جب مودی کشمیر میں بننے والی طویل سرنگ کا افتتاح کر رہے تھے۔ گاندربل کی کچھ بچوں نے مقامی سطح پر ایک کرکٹ میچ کا انعقاد کیا۔ ان میں ایک کرکٹ ٹیم نے پاکستانی جبکہ دوسری ٹیم نے انڈین ٹیم کی یونیفارم پہنی۔ مقابلے سے پہلے دونوں ٹیموں کے بچوں نے اپنی اپنی ٹیم کا قومی ترانہ پڑھا ۔ ہاتھ ملائے اور میچ شروع ہو گیا۔کسی بچے نے شرارتا پاکستانی ترانہ پڑھنے والی ٹیم کی ویڈیو موبائل فون پر بنا لی۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر پہنچی تو وائرل ہو گئی۔ جن کھلاڑیوں نے پاکستانی وردی پہن رکھی تھی ان کی ٹیم کا نام گاندربل کے مقامی صوفی بابا دریادل کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد انڈین پولیس نے ان کھلاڑیوں کو گرفتار کر لیا جنہوں نے اس میچ میں حصہ لیا تھا۔گرفتار کیے جانے والے زیادہ تر کھلاڑی سکول یا کالج کے طالب علم ہیں۔یہ کوئی بڑا ٹورنامنٹ نہیں تھا۔ ان بچوں کو پتہ نہیں تھا کہ پاکستانی ٹیم کی وردی پہننے اور پاکستان کا ترانہ گانے پر انہیں جیل جانا پڑے گا۔
اب ہم اس اہم سوال کی طرف آتے ہیں کہ کشمیری پتھر کیوں اٹھاتے ہیں ؟ نفسیات دان اس عمل کو کیتھارسس کا نام دیتے ہیں۔ عموما دیکھا ہو گا کہ کسی فلم ، ڈرامے یا ناول کے جذباتی مناظر کے دوران ناظرین رونا شروع کر دیتے ہیں۔اس عمل کے ذریعے دراصل جو اپنے اندر کے غصے، غم اور دکھ کی کیفیات کا مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ماہرین سوال کا تعلق تین اہم سوالات سے جوڑتے ہیں۔ لوگ اپنے غم کی شدت کو کم کرنے کے لیے کیا طریقہ اپناتے ہیں؟ اپنے غصے کو کنڑول کیسے کرتے ہیں؟ اور اپنے اند ر کے غبار کوکم کیسے کرتے ہیں؟اس عمل کا تعلق نفسیات سے ہوتا ہے۔ کشمیریوں کی نفسیات کا اندازہ گزشتہ ہفتے کے ردعمل سے آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ 9 اپریل کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی لوک سبھا کی ایک نشست پر ضمنی انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔یہ حلقہ وسطی کشمیر کے تین اضلاع پر مشتمل ہے۔ ان میںسری نگر، بڈگام اور گاندر بل کے اضلاع شامل ہیں۔ یہ انتخابی حلقہ پر امن تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں انتخابی سرگرمیاں شمالی کشمیر کے مقابلے میں زیادہ دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ریاستی اثر رسوخ استعمال کر کے ان علاقوں میں جعلی ووٹ پول کرنے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے یہاں پولنگ کی شرح بھی بہتر ہوتی ہے۔ اس سب کے باوجودکشمیریوں نے مودی سرکار کا 9اپریل کے جعلی انتخابات کا ڈھونگ مسترد کر دیا۔اس نشست کے لیے 12لاکھ 60 ہزارووٹرز کا انداج کیا گیا تھا۔ جعلی ووٹ پولنگ کے باوجود ٹرن آﺅٹ 7 فی صد رہا۔اسے تاریخ کا کم ترین ٹرن آﺅٹ بھی کہا جارہاہے۔مقبوضہ کشمیر میں انتخابی ڈھونگ کے خلاف مکمل ہڑتال رہی۔ نوجوان گولیوں کا مقابلہ پتھروں سے کرتے رہے۔ ڈیڑھ ہزار پولنگ مراکز میں سے کم اکژ ویران رہے۔ مظاہرین نے کئی مقامات پر پولنگ اسٹیشنوں میں گھس کر بیلٹ بکس اور الیکٹرونک ووٹنگ مشینز چھین لیں اور پولنگ عملے کو بھاگنے پر مجبورکردیا۔ 70پولنگ اسٹیشنوں کو تالے لگادیے گئے۔کئی مقامات پر پولنگ مراکز اور پولنگ عملے کی گاڑیوں پر پتھراو¿ کیا۔بھارتی فوج کی کھلی دہشت گردی کے نتیجے میں بڈگام میں بھارتی فوج اورپولیس نے اندھا دھند فائرنگ کرکے 8 کشمیری شہید کر دئےے۔ شہادتوں کی خبر پھیلتے ہی سری نگر اور دیگر مقامات پر مظاہروں میں شدت آگئی۔ ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر آکر بھارت کے خلاف اور آزادی کے حق میں فلک شگاف نعرے لگائے۔مقبوضہ کشمیر پر قابض حکومت نے ضمنی انتخاب کا ڈرامہ رچاتے ہوئے 8 افراد کی جان لے لی لیکن کشمیریوں نے ثابت کردیا کہ انتخابات
حق خودارادیت کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ ضلع بڈگام کی تحصیل بیروہ کے ایک پولنگ اسٹیشن پر نوجوان پاکستانی پرچم لے آیا جب کہ پولنگ اسٹیشن کے باہر بھارتی فوجی اہلکار بے بسی کے عالم میں کھڑا رہا۔ 10 ۱پریل کو 8افراد کی شہادت پر شدید مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ انڈین سیکورٹی اداروںنے پیر کے دن ان مظاہروں میں چار مزید مظاہرین کو شہید کر دیا۔ یوں دو دن میں 12 افراد الیکشن ڈرامے کی بھینٹ چڑھ گئے۔ مقبوضہ وادی میں ایک اورانتخاب 12 اپریل کو اننت ناگ میں ہوگا جبکہ دونوں حلقوں کے نتائج کا اعلان 15 اپریل کو کیا جائے گا۔
مقبوضہ کشمیر وقفے وقفے سے تشدد کی آگ بڑھک اٹھتی ہے جس میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔گلی بازار سنگ بازوں کے سنگ آباد ہیں۔ یہ گوریلا سنگ باز نت نئے طریقوں سے بھارت کے سیکورٹی اداروں کے لیے پریشانی کا سبب بن رہے ہیں۔ روزانہ سیکڑوں نوجوان ٹولیوں کی شکل میں گلیوں میں نمودار ہوتے ہیں۔ پتھر برساتے ہیں اور دوبارہ گلیوں میں غائب ہو جاتے ہیں ۔یہ وہ نوجوان ہوتے ہیں جنہیں بھارت کے لکھاری حریت پسند کا نام دیتے ہیں یعنی آزادی چاہنے والے۔ان حریت پسندوں کا واحد ہتھیار پتھر ہیں۔ انہیں جوابی حملوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ کچھ گرفتار ہو جاتے ہیں۔جیلوں کی سلاخوں میں تشدد سہتے ہیں۔ کچھ بیلٹ گن کا شکار ہو کر بینائی سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ کچھ اندھی گولیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جو گولیوں سے بچ جاتے ہیں وہ زندگی بھر کے لیے اپاہج ہو جاتے ہیں۔اس طرح کے احتجاجی حملے فلسطین کے مسلمان اسرائیل کے خلاف بھی کرتے رہے ہیں۔ اس گوریلا سنگ بازی کو انتفادہ کا نام دیا گیاتھا۔
کشمیر میں بھی کئی برسوں سے نوجوان ٹولیوں کی شکل میں پتھر پھینک کر اپنے غصے کا اظہارکررہے ہیں۔ پاکستان اسپانسرڈ دہشت گردی کے بھارتی الزام کا سامنا کرتا رہا ہے۔ سنگریزوں سے حملے کرنے والے ان معصوم کشمیری نوجوانوں نے یہ ثابت کیا کہ بھارت کا اسپانسرڈ دہشت گردی کا ڈرامہ صحیح نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پتھراﺅ بھی کبھی کسی سے پیسے لے کے کیا جاتا ہے۔ ان کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ بیلٹ گن کے وحشیانہ استعمال سے ان کی بینائی تو چھینی جا سکتی ہے لیکن ان کے آزادی کے خواب کوئی نہیں چھین سکتا۔