ہمارے ہاں ہر وقت کسی نہ کسی ایشو کی گنجائش ہوتی ہے۔ کوئی ایشو سامنے آتا ہے۔ ہم شاید حالات کے ستائے ہوئے اور ایشو¶ں کے ترسے ہوئے لوگ ہیں کہ ابھی کوئی ایشو اپنی ابتدائی حالت سے بھی پہلے والی حالت میں ہوتا ہے کہ ایک طوفانی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پھر اس ایشو کو ہرا دینے کے لئے ہمارے ہاں قوال میسر آجاتے ہیں۔ پھر قوالوں کے ساتھ ہم نوا¶ں کی فوج ظفر موج ہوتی ہے۔ موٹوں پتلوں پر مشتمل ایک ٹولی کی صورت میں قوالی شروع ہو جاتی ہے۔ ایک ایک مصرعے کو درجنوں بار گھمایا پھرایا اور الٹایا جاتا ہے۔ مصرعے کے ساتھ ساتھ دست و بازو گردنیں اور پیٹ ہلتے ہیں۔
ان دنوں پانامہ لیکس کے ایشو قوالی شروع ہو چکی ہے۔ ہمارا اپنا جی چاہتا ہے کہ ہمارے پاس اتنے پیسے ہوتے کہ ہم اسے اپنی بیگم صاحبہ سے بچا کر کسی آف شور کمپنی میں منتقل کر دیتے اور پھر پانامہ لیکس کے ذریعے ہمارا خفیہ سرمایہ طشت ازبام ہوتا تو ہم اپنی بیگم صاحبہ سے کہتے۔ یہ سب سرمایہ تمہارا ہے۔ میں اپنی بیگم صاحبہ کے سامنے ایک ڈری ہوئی تقریر کرتا ”دیکھو بیگم صاحبہ! تم نے مجھے تنخواہ دار مظلوم شوہر سمجھنے کی بجائے نوٹوں والی مشین یعنی اے ٹی ایم سمجھ لیا۔ میں تمہیں شاپنگ کے لئے دلی دروازے لے کر جانا چاہتا تھا لیکن تم بالااصرار مجھے لبرٹی مارکیٹ جا پھنساتی تھی۔ میں تمہیں مکئی کا بھٹہ کھلانا چاہتا تھا تم مجھے میکڈونلڈ کا راستہ دکھاتی تھی۔ اس وجہ سے میں نے اپنا سرمایہ آف شور کمپنی کے سپرد کر دیا۔“
ہمارے ایک دوست اکثر کہا کرتے ہیں کہ فی زمانہ سڑکوں اور دماغوں کے اندر غلط ٹریفک رواں دواں ہے۔ اس غلط ٹریفک کا اثر آپ پر کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کا ہینڈل یا سٹیرنگ آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کوئی جب چاہے‘ آپ کا ہینڈل یا سٹیرنگ جس طرف چاہے موٹروے اور آپ کا توازن بگاڑ کر رکھ دے۔ آپ کا توازن آپ کے اپنے پاس ہونا چاہئے۔ فرض کریں آپ کو غصہ آتا ہے تو غصہ اپنی مرضی سے یا اپنی وجہ سے آنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ آپ کو جو شخص ماچس دکھائے‘ آپ بھڑک اٹھیں۔
پانامہ لیکس نے ماچس دکھائی ہے۔ ہمارے سیاست دان بھڑک اٹھے ہیں۔ ساری دنیا کو علم ہے کہ ہمارے میاں نواز شریف صاحب کا خاندان کاروباری خاندان ہے۔ میاں نواز شریف صاحب کی کوئی پرچون کی دکان ہے نہیں کہ رات کو جتنی سیل ہوئی‘ اس میں سے دکان کا کرایہ اور چیزوں کی اصل رقم دکان ہی کے کسی کونے کھدرے میں رکھ دی اور گھر کے خرچے کے لئے دو تین سو روپے جیب میں رکھ لئے۔ یہ بڑا کاروبار ہے۔ اس میں بہت سرمایہ انویسٹ کیا جاتا ہے اور پھر منافع بھی زیادہ آتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک خواب جمہوریت کے پودے کو تناور درخت میں تبدیل کرنے کا بھی چلا آرہا ہے ہمارے ہاں جمہوریت کے تعاقب میں آمریت ہی رہی ہے۔ ہماری جمہوریت اور آمریت میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ کچھ سیاست دان مارشل لاءلگوا کر خوش ہوتے ہیں۔ نواز شریف صاحب جب منتخب وزیراعظم تھے تو انہیں مشرف صاحب نے ملک سے باہر بھیج دیا۔ انہیں تو پاکستان آنے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ ظاہر ہے شریف خاندان نے اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے بیرون ملک کاروبار کا آغاز کیا۔ آج کل کونسا کام ایسا ہے کہ آپ بغیر قانونی تقاضے پورے کئے اکیلے ہی کرتے پھریں۔ ہر ملک کا اپنا قانون ہوتا ہے۔ پہلے سرے محل کا شور مچا تھا۔ سوس حکومت کو خط لکھنے اور لکھوانے میں پورے پانچ سال گزر گئے۔ آخر میں کیا ہوا؟ سرے محل اور سوئس اکا¶نٹس کی دھول بھی بیٹھ گئی اور زرداری صاحب بھی عدالتوں سے سرخرو ہو گئے۔ اب ڈی چوک کی بجائے رائے ونڈ دھرنا کی تڑیاں لگائی جا رہی ہیں۔ جدوجہد کا بھی ایک طریقہ سلیقہ ہوتا ہے اور فیصلے بھی سوچ سمجھ کر کئے جاتے ہیں۔ ڈی چوک کے دھرنے نے مقبولیت سے نامقبولیت کی طرف سفر کیا۔ ہر شخص جو بات کہتا ہے‘ اس کا ایک وقت‘ ایک وزن اور ایک رعب ہوتا ہے۔ عوام کو کیا سمجھانا ہے‘ کس وقت سمجھانا ہے اور کتنا سمجھانا ہے‘ لیڈر کو ان باتوں کا علم ہونا چاہئے۔ جو لوگ مسائل کی چکی میں روزانہ پستے ہیں‘ انہیں لیڈروں کے سمجھانے سے قبل ہی علم ہے کہ ان کے گلے میں مکان کے کرائے‘ بجلی کے بلوں‘ بچوں کی فیسوں‘ کتابوں یونیفارم اور سب سے اہم دو وقت کی روٹی اور دیگر ضروریات کے ان گنت پھندے ہیں۔ غریب آدمی تو اب اپنے کام پر جانے کے لئے صرف راستہ مانگتا ہے۔ دھرنوں‘ جلسوں اور ہنگاموں سے غریبوں مزدوروں کا راستہ روکنا کسی لیڈر کا کمال نہیں ہوتا۔ ہمارے لیڈروں کے اخلاص کو اس وقت تسلیم کیا جائے گا جب وہ عوام کے لئے اپنے پہلے سے کچھ خرچ کریں گے۔ اثاثے ڈیکلر کرنا کرانا کوئی بڑا کام نہیں ہے۔ اثاثے غریبوں‘ مسکینوں اور ضرورت مندوں پر خرچ بھی ہونے چاہیں‘ غریبوں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کے لئے صرف حکمران بننا ہی کیوں ضروری ہے۔ اپوزیشن والے بھی اپنا پلا ہلائیں اور غریب عوام کی خدمت کریں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے عوام کے حصے میں کیا آئے گا؟