خفیہ ایجنسیوں نے پیپلز پارٹی اور اتحادیوں کی مالی بے ضابطگیوں پر رپورٹ تیار کر لی
لندن (تحقیقاتی رپورٹ، خالد ایچ لودھی) پاکستان پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت جو اپنی آئینی مدت پوری کر کے سبکدوش ہو چکی ہے یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی جمہوری حکومت کے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا منفرد واقعہ ضرور ہے لیکن اس جمہوری حکومت کے دور اقتدار میں ریکارڈ سطح پر کرپشن ہوئی جس نے پوری طرح ملکی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے کر حکومتی ڈھانچے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ اس پورے دور میں ایوان صدر سے لے کر وزیراعظم ہاﺅس اور خاص طور پر وفاقی وزارت داخلہ اور خارجہ اور خزانہ میں بے ضابطگیوں کے انوکھے واقعات رونما ہوئے جس پر بیورو کریسی کے اعلیٰ افسران نے بار بار حکومت وقت کے سامنے اپنی تحقیقاتی ریکارڈ کرائے مگر ان تمام تحفظات کو یکسر نظرانداز کیا جاتا رہا۔ انتہائی معتبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے ملک کی خفیہ ایجنسیوں نے قومی مفادات کے پیش نظر ایک طویل خفیہ رپورٹ تیار کی ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق اتحادی حکومت کی مالی بے ضابطگیوں پر مبنی ہے۔ سابق حکمرانوں کی کارکردگی کے بارے میں اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح قومی خزانے کو لوٹا گیا اور 18کروڑ عوام کے لئے پیدا کی گئی مشکلات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے غیرملکی قرضوں کا حجم 70ارب ڈالر تک پہنچا دیا جبکہ حکومت کی کلیدی عہدوں پر فائز تمام کی تمام شخصیات زیادہ تر کرپشن اور منی لانڈرنگ میں ملوث تھیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آئین پاکستان کی شق 62 اور 63پر پوری طرح عمل درآمد کرایا جائے تو سابق حکومت کے 80فیصد ارکان انتخابی عمل کے اہل ہی قرار نہیں پائیں گے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سابق حکومت کرپشن کے حوالے سے بدترین حکومت تھی جس نے اپنے پورے دور حکومت میں 10ارب ڈالر سے بھی زائد کرپشن کی۔ حکومت کی انتہائی ناقص حکمت عملی کے باعث امریکی ڈالر کی قدر 5برسوں میں 62ورپے سے بڑھ کر 100روپے تک جا پہنچی اور اس دوران غیرملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر تھی۔ بجلی اور گیس کا بحران بدترین سطح پر جا کر ملکی معیشت کو تباہ کر گیا۔ ریلوے، قومی ائر لائن، او جی ڈی سی، واپڈ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، سی ڈی اے، ایف بی آر پورٹس اینڈ شپنگ کے قومی اداروں میں وسیع پیمانے پر بے ضابطگیوں اور کرپشن کی وجہ سے قومی خزانے کو بے پناہ نقصان ہوا اور ان اداروں کے فرانزک آڈٹ کرانے سے بار بار روکا گیا ۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے ڈاکٹر عاصم اور رحمن ملک دونوں نے ملکی اداروں میں خلاف ضابطہ مداخلت کر کے حکومتی ڈھانچے کو ناکارہ بنا کر رکھ دیا۔ بیرون ملک دوروں کے دوران رحمن ملک نے قومی خزانے سے اپنی ذاتی اخراجات پر بھاری ملکی سرمایہ خرچ کیا۔ ملکی تاریخ کے پہلے وزیر داخلہ بنے جنہوں نے ریکارڈ سرکاری دورے کئے۔ اسی طرح ڈاکٹر عاصم اور وزیر خارجہ حنا ربانی کھرنے بھی غیرملکی دوروں پر بھاری قومی سرمایہ ضائع کیا۔ صدر زرداری او ردونوں وزرائے اعظم نے بھی غیرملکی دوروں میں قومی خزانے سے بے پناہ سرمایہ استعمال کیا۔ ان غیرملکی دوروں کی نوعیت ہمیشہ ہی ذاتی، کاروباری اور نجی مصروفیات کی حد تک تھی لیکن ان دوروں کو سرکاری دورے بنا کر ملکی خزانے سے بھاری رقوم استعمال میں لائی گئیں۔ غیرملکی شخصیات کے ساتھ محض فوٹو سیشن اور خریداری پر وقت صرف کیا گیا جس سے ملکی وقار مجروح ہوا جس کی نشاندہی قومی ادارے بار بار کرتے رہے۔ رپورٹ میں چونکا دینے والا یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ سابق حکومت کے بااختیار اور ایوان صدر کی مکمل پشت پناہی رکھنے والے وزراءاور خود صدر مملکت چین اور برطانیہ کے علاوہ امریکہ میں اپنی نجی دوروں کے دوران اپنے کاروبار اور مالی امور طے کروانے میں مملکت پاکستان کی مشینری (بیورو کریسی+ سفارت کاری) کو بھی برابر استعمال میں لاتے رہے۔ برطانیہ او رچین کی حکومتوں سے پاکستان کے لئے مالی امداد جلد از جلد لینے کے لئے او ر اس میں اپنے شیئرز حاصل کرنے کی غرض سے خلاف ضابطہ درپردہ کوشش بھی کرتے رہے۔ برطانیہ، امریکہ، چین اور بعض خلیجی ریاستوں میں ایوان صدر کی منظوری سے من پسند سیاسی شخصیات کو پاکستان کے سفارتی مشنوں میں تعینات کیا گیا۔ غیرملکی دوروں میں صدر اور وزرائے اعظم نے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے علاوہ منظور نظر شخصیات کو ہمراہ رکھا اور VVIP فلائٹ کے ذریعے غیرملکی اشیاءخرید کر ذاتی استعمال کے لئے پاکستان لائی گئیں جن پر کوئی کسٹم ڈیوٹی ادا نہیں کی گئی۔ کشمیر پالیسی کے حوالے سے خفیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے امریکہ، برطانیہ اور عرب ممالک میں پاکستان کے سفارتی مشنوں میں گذشتہ پانچ برسوں میں سرکاری سطح پر کشمیر کے حوالے سے خاطر خواہ سرگرمی نہ ہونے کے برابر رہی۔ برطانیہ اور امریکہ میں کشمیر کے حوالے سے پارلیمانی لابنگ میں سردمہری چھائی رہی جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں پاکستان کے سفارتی مشنز میں دونوں سفارتی نمائندے صحافتی شعبے سے تعلق رکھتے تھے اس کے باوجود برطانیہ اور امریکہ میں پاکستان کے میڈیا آفس سفارشی افسران کی تعیناتی کی بھینٹ چڑھ گئے اور مغربی میڈیا میں کشمیر کا ایشو گذشتہ پانچ سالہ دور حکومت میں ”ڈیڈ ایشو“ بن کر رہ گیا۔
پیپلز پارٹی/ اتحادی