”بلوچوں کو ترقیاتی منصوبے نہیں، اپنے بچوں کی بحفاظت واپسی پیاری ہے“
لندن (این این آئی) بلوچستان میں قومیت پرست جماعتوں نے بالآخر عوام سے رجوع کر نے کا فیصلہ کر لیا ہے، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل کی تقریباً چار سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد واپسی سے سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے، استقبال کےلئے ایک بڑے عرصے کے بعد ہزاروں لوگ سڑک پر آئے، دارالحکومت کی سڑکیں بلوچی گیتوں سے گونج اٹھیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پہلے بلوچ عوام میں ریاست مخالف جذبات کی وجہ سے پارلیمانی سیاست میں یقین رکھنے والی قومیت پرست جماعتیں عوامی اجتماع سے گریز کرتی تھیں۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلی اختر مینگل نے عوام کےلئے کسی ترقیاتی یا تعمیری منشور کا اعلان نہیں کیا کیونکہ وہ اسے غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بلوچستان کے لوگ مشکل سے ہی اس کا مطالبہ کریں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت یہ منشور لے کر جائے گی بھی تو لوگ ایک پل کےلئے بھی ان کی طرف نہیں دیکھیں گے۔ لوگوں کی درد بھری نگاہوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے بجائے انہیں اپنے بچوں کی بحفاظت واپسی پیاری ہے۔ بلوچ آبادی میں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر سیاسی سرگرمیاں چاردیواری کے اندر کی جا رہی ہیں۔ منوں جان روڈ پر واقع علاقے ہدا میں نیشنل پارٹی کے امیدوار ٹکری شفقت اللہ لانگو نے لوگوں کو بتایا کہ بلوچستان کے جو معدنی وسائل ہیں، وہ زمین کے باہر ہوں یا اندر ان پر بلوچوں کا حق ہے اور یہ وسائل یہاں کے لوگوں پر ہی خرچ ہونے چاہئیں۔ رپورٹ کے مطابق بلوچ قوم پرست جماعتوں کے مطالبات تو ایک جیسے ہیں مگر شخصی اختلافات کے باعث ان جماعتوں میں اتحاد نہیں ہو سکا۔ قوم پرست جماعتوں میں اتحاد کے لئے مذاکرات تو جاری ہیں۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام پہلے مل کر انتخابات لڑتے رہے ہیں اس بار حریف کے طور پر مدمقابل ہیں۔ مذہبی جماعتوں کی توجہ کا مرکز پشتون آبادی ہے جہاں ان کے نظریاتی ووٹر ہیں۔ بلوچ آبادیوں کے برعکس ان علاقوں میں ووٹروں کا ٹرن آﺅٹ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق قوم پرستوں کو عوام میں پذیرائی حاصل ہے۔ اگر حالات سازگار رہے اور بلوچ قوم پرست جماعتیں انتخابات میں حصہ لیتیں ہیں تو ٹرن آٹ میں اضافہ ہو گا ورنہ اس میں انتہائی کمی ہو گی۔
بلوچ / ترقیاتی منصوبے