ٹیکسٹائل انڈسٹریز کے بعد پاکستان کی فارماسوٹیکل انڈسٹری ایکسپورٹ کے ذریعہ بھاری زرمبادلہ کما رہی ہے۔ اس وقت دنیا کے 67 ممالک میں پاکستانی ادویات فروخت ہو رہی ہیں اور یہ واحد انڈسٹری ہے جس میں ترقی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان فارموسوٹیکل اینڈ مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور ایف پی سی سی آئی کے ایگزیکٹو ممبر ندیم شامی نے نوائے وقت کو بتایا پاکستان میں اب فارماسوٹیکل کی انڈسٹری تیزی سے ترقی کرے گی کیونکہ سب سے بڑا مسئلہ تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے شرط تھی کہ کسی انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کی لیبارٹری سے میڈیسن کا کوالٹی سرٹیفکیٹ بھی پیش کیا جائے۔ اس مقصد کیلئے پاکستانی ایکسپورٹرز پریشان رہتے تھے کہ پورے پاکستان میں ایک بھی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری ایسی نہیں تھی جو بین الاقوامی معیار کی ہو۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کو یہ بہت بڑا کریڈٹ جاتا ہے کہ جب کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ میں غلط ادویات کا مسئلہ سامنے آیا تو انکشاف ہوا کہ پاکستان میں تو عالمی معیار کے مطابق ڈرگ ٹیسٹنگ کی کوئی لیبارٹری ہی نہیں ہے۔ اس وقت تو محمد شہباز شریف نے لندن پیرس وغیرہ کی لیبارٹریز سے میڈیسن کو ٹیسٹ کرایا اور ساتھ ہی حکم دیا کہ پاکستان میں بھی ایک عالمی معیار کی ٹیسٹنگ لیبارٹری ہونی ضروری ہے۔ چنانچہ پنجاب کی سب سے اہم انڈسٹریل اسٹیٹ سندر میں دس کروڑ روپے کی لاگت سے پاکستان کی پہلی انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری چند روز پہلے مکمل ہو گئی ہے اور بہت جلد اپنے کام کا آغاز کر دے گی۔
ندیم شامی نے مزید بتایا کہ اس وقت پنجاب میں فارموسوٹیکل کے شعبے میں زبردست سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ اگر حکومت اس اہم انڈسٹری کی سرپرستی کرے اور بجلی و گیس کے بحران کے اثرات اس پر نہ پڑنے دے تو پاکستان فارماسوٹیکل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے ویژن 2020 کے مطابق اس کی ایکسپورٹ ایک ہزار ملین ڈالر تک آسانی سے پہنچ سکتی ہے۔ پنجاب کے صرف سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں میڈیسن کے 167 یونٹس زیرتعمیر ہیں اور بہت تیزی سے مکمل ہو رہے ہیں۔ پنجاب کی بزنس کمیونٹی کو یقین ہے کہ توانائی کے شعبے پر جتنی زیادہ توجہ دی جا رہی ہے اس کے نتیجہ میں ایک سال کے اندر توانائی کا بحران حل ہونے کے امکانات روشن ہیں۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کا موقع ملتا ہے تو خوشی ہوتی ہے کہ 67 ممالک میں میڈ ان پاکستان کی تحریر والی میڈیسن انڈیا کی نسبت کوالٹی میں آگے ہیں اور وہاں کے ڈاکٹر انڈیا کی جگہ پاکستان کی میڈیسن تجویز کرتے ہیں۔ دنیا ویت نام کو ہتھیار فروخت کر رہی ہے ہم ویت نام کو میڈیسن بیچ رہے ہیں۔ یہی حال بہت سے دوسرے ممالک میں ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد میڈیسن کی انڈسٹری مشکلات کا شکار ہو گئی تھی لیکن ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام نے مشکلات میں کمی کر دی ہے۔ فارماسوٹیکل کی انڈسٹری سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں مکمل تعاون کر رہی ہیں۔ لیکن ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی دیر سے بننے کی وجہ سے مسائل کچھوے کی چال سے حل ہو رہے ہیں۔ اگر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ماہانہ میٹنگ کرنی شروع کر دیں تو اس شعبہ کے مسائل تیزی سے حل ہو جائیں گے۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ میڈیسن کی ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے پیکنگ میٹریل اور بائینڈنگ میٹریل کو سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ کر دے جو انڈسٹری 1990ءمیں 80 فیصد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاس تھی وہ اب 60 فیصد پاکستانیوں کے پاس ہے اسلئے فارماسوٹیکل انڈسٹری کے مسائل حل کر کے اس انڈسٹری کو تیزی سے پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024