1947ءمیں مملکت خدادپاکستان معرض وجود میں آئی اور آج 2013ءکا آفتاب اپنی آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے سے اب تک 66 برس ہماری سرزمین پاک نے نصف دور، دور آمریت میں گذارا۔ جنرل ایوب سے لیکر جنرل (ر) پرویز مشرف اور درمیاں یحییٰ و ضیاءکی ڈکٹیٹر شپ قائد اعظم محمد علی جناح کی جمہوری، اسلامی و فلاحی ریاست پاکستان کی شموئی تقدیر ثابت ہوئی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آمروں کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے میں ہماری حکومتوں کاکردار بلکہ بد کردار بھی اہم رہا ہے۔ تاہم تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی بتایا ہے کہ کئی سیاستدان و سیاسی جماعتیں ایسی بھی ہیں کہ جنہوں نے فوجی آمروں ہی کی درگاہوں سے سیاسی اٹھان و اقتدار کی اڑان پکڑی اور پھر فوجی آمروں کی معیت کی بدولت ان سیاستدانوں کو اقتدار کا نشہ منہ ہی لگ گیا۔ یہاں تک کہ وہ سیاسی جماعتیں جن کا نعرہ ہی ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ تھا، نے بھی انتقام بھی لیا تو صرف عوام سے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ”سیاست خدمت خلق ہے“ ”سیاست عوامی فلاح ہے“ اقتدار خدا کی امانت و حکومت عین عبادت ہے“ کے درس کریمی بھول ہی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کرپشن ، بے حسی، افراتفری و حوس اقتدار کے منفی اثرات کے پیش نظر ہمارے کچھ بہترین و انسان دوست احباب کو آئین کے آرٹیکلز 63-62 کی یاد آ ہی گئی ہے۔ دیر آید درست آید کے مصداق ابھی بھی ہم سنبھل جانے، سلجھ جانے کی امید رکھتے ہیں۔ ابھی بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ وطن عزیز میں جمہوریت کو ہمیشہ ہی کسی دیوانے کا خواب سمجھا گیا تاہم ملک کے چند جمہوریت پسند عناصر جمہوریت کے ملک میں آ جانے کی سعی میں رہتے ہیں۔ یوں تو ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ملکی قیادت سنبھالے رہی ہیں تاہم ملک میں قیادت کا فقدان میجر مسئلہ ہی رہا.... جماعت اسلامی و تحریک انصاف والے تبدیلی کی بات اسلئے کر رہے ہیں کہ اب انہیں بھی آزمایا جائے۔ دونوں جماعتوں کے منشور واضح ہو چکے ہیں لیکن میرے نزدیک، اسلامی جمعیت ہو یا تحریک انصاف یا پھر کوئی بھی اور جماعت انہیں اصل میں عوام نے نہیں بلکہ اب انکی حریف آزمائی جا چکی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی نااہلیوں، بے ایمانیوں و مفاد پرستیوں نے جتانا ہے کیونکہ، عوام ان سے تنگ، مخلص قائد کی تلاش اور آرٹیکلز63-62 پہ عمل کے متمنی نظر آ رہے ہیں۔ موجودہ 2013ءکے انتخابات کی اہم بات یہ ہے کہ ملک کی بڑی جماعتوں کے مقابلے میں تحریک انصاف نے ووٹ بنک بڑھا کر اور جماعت اسلامی نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ سسٹم کے تحت مرکز میں اپنی حکومت کے قیام کے امکانات روشن کر لئے ہیں۔ تاہم ہمارے ہاں الیکشن جیتنے میں ووٹر کا اپنا مزاج بھی بہت معانی رکھتا ہے۔ رہی بات آل پاکستان مسلم لیگ کے جنرل (ر) پرویز مشرف کی تو انہیں الیکشن لڑنے کی تیاری سے زیادہ اپنے خلاف مقدمات لڑنے کی تیاری کرنا پڑیگی۔یہ بات تو سب کو نظر آ رہی ہے کہ تحریک انصاف اور اسلامی جمعیت کے علاوہ دیگر تمام سیاسی جماعتوں اور انکے قائدین عدالتوں میں مطلوب و مقصود ہیں۔ اس سال چونکہ ہماری عدلیہ کی اعلی ٰ قیادت و ملٹری کی ہائی کمان بھی اپنے عہدوں سے سبکدوش ہونیوالی ہے اس لئے بھی 2013ءکے انتخابات کو شفاف و غیر جانبداربناناہو گا تاکہ سلجھی و مخلص قیادت کو عنان حکومت سونپ کر ہی ہمارے نڈر و بیباک چیف جسٹس چودھری افتخار و چیف آف آرمی جنرل پرویز کیانی سبکدوش ہوں کیونکہ ہم نے ملک بچانا ہے اور ملک بچانے کا یہ نادر موقعہ ہے چنانچہ حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ عدلیہ الیکشن کمشن امیدواروں کی چھانٹی کا کام غیر جانبدارانہ و بے رحمانہ انجام دیں۔ عدلیہ اور الیکشن کمشن نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار امیدواروں کی بہترین چھانٹی کاکام شروع کر رکھا ہے ۔رہی سہی کسرووٹر بھی پوری کریں وہ اس طرح کہ وہ اپنا ووٹ استعمال کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ کر فیصلہ کریں کہ انکے ووٹ کا اصل حقدار کون ہے۔ یہ عدلیہ، میڈیا، الیکشن کمشن اور سب عوام کے متحد و ایک ہو جانے کا وقت ہے۔ہم میں سے ہر کسی نے اپنی اپنی سطح پر اپنی ذمہ داری دیانتداری سے نبھانی ہے۔ ہم نے عزیز داری، برادری، دباﺅ، لالچ، طاقت و ترغیب سب کو پیچھے چھوڑنا ہے.... بس ایک اپنے وطن، ملک، پاکستان اور پاکستان کے مفاد کو سامنے رکھنا ہے ۔پاکستان ہے تو ہم باوقار ہیں، مستحکم ہیں، ایک قوم ہیں۔ بس پاکستان ہے تو ”ہم ہیں“ ہم نے پاکستان کو بچانا ہے....”اچھی قیادت“ کیلئے امیدواروں کی چھانٹی، مخلص قیادت کیلئے عوام کا ووٹ ہمارے پیارے وطن کے مستقبل کا معاملہ ہے اگر ہم سب مل کر اچھی قیادت کی تلاش کی ٹھان لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ملک میں موجود مخلص و محب الوطن قیادت سے محرومی کے عذاب سے اس بار نجات نہ پا سکیں۔ ایسا ہوا تو 2013ءکے الیکشن کا سورج نوید صبح نو کی کرنیں لیکر ضرور طلوع ہو گا۔
اس وقت عدلیہ والیکشن کمشن کی تندہی و راست اقدام کی بدولت الیکشن نتائج سے قبل ہی لاتعداد سیاسی جماعتوں و سیاسی قائدین کے برج الٹ چکے ہیں اور کچھ الٹنے والے ہیں۔ سیاسی تجزیہ بتا رہا ہے کہ آئندہ مین سٹریم پہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی اتحادی حکومت کا بغل.... بج رہا ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ اس بار تحریک انصاف مرکز میں اتنی نشستیں ضرور حاصل کرلے گی کہ انکے بغیر کوئی دوسری جماعت مرکز میں حکومت قیام کرنے کیلئے اپنی گنتی پوری نہ کر پائے گی۔ تاہم پی پی کے اپنے چند اندرونی خلفشار اور پانچ سالہ کارکردگی اسے مرکز میں اپنی حکومت کے قیام سے محروم کر دیگی۔ پچھلے الیکشنز میں مرکز میں پی پی حکومت سازی کرشمہ سے کم نہ تھی کیونکہ عوام کے دلوں میں بے نظیر بھٹو قتل کے حوالے سے پی پی کیساتھ ہمدردی کے جذبات موجزن تھے۔الیکشن 2013ءمیں پی پی کے پاس کوئی شاہکار ہمدردی ووٹ نہیں ہے۔ بلاول بھٹو بھی تاحال سیاست میں طفل مکتب کی حیثیت رکھتے ہیں چنانچہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو والی قیادت پارٹی کا طرہ امتیاز نہیں رہی۔ مسلم لیگ (ن) ، مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کے برعکس پی پی نے ابھی تک اپنی کوئی منظم سیاسی مہم بھی شروع نہیں کی۔ پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی پارٹی کے اندر زبردست اختلافات پائے جاتے ہیں جس پہ بلاول بھٹو بھی برہم ہیں۔ مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ق) کی الیکشن مہم عوامی حلقوں میں پہنچ چکی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024