خیبر پختونخوا کی ”نارِ نمرود“ اور ہیروازم
کیا آپ اتنے ہی سادہ و معصوم تھے کہ آپ کو صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کو 18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے ساتھ مشروط کرنے کی سازش کا علم و ادراک ہی نہ ہوسکا۔ ذرا اپنے ذہنِ رساکو پس منظر کی جانب تو لے جائیے۔ آپ 17 ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کیلئے‘ جو درحقیقت صدر کی ذات میں شامل کئے گئے جرنیلی آمریت کے صوابدیدی صدارتی اختیارات کے خاتمہ کا تقاضہ تھا، وفاقی حکمرانوں پر دباﺅ ڈالتے تو وہ پس و پیش سے کام لینا شروع کردیتے۔ نیت میں فتور یہی تھا کہ کسی حیلے بہانے سے 17 ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کی نوبت نہ آنے پائے چنانچہ انہوں نے حکومتی ترغیبات کے طلسم کدہ کے آگے دم ہلانے والے اپنے حکومتی حلیفوں کو پچکارا تو اے این پی نے یہی موقع غنیمت جانا۔ ایک شرارت کے تحت پہلے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام عوامی جمہوریہ پاکستان میں تبدیل کرنے کا شوشہ چھوڑا گیا اور جب اس پر محب وطن حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا تو یہ شرارتی عناصر کھڑے پاﺅں دم دبا کر پیچھے کی جانب راہ فرار اختیار کرتے نظر آئے۔ اگر اس شوشے کے خلاف اسلامیان پاکستان کی غصیلی نفرت کا اظہار سامنے نہ آتا تو عوامی جمہوریہ پاکستان کی منظوری ہی کو 18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے ساتھ مشروط کردیا جاتا۔ وفاقی حکمرانوں کی نیت تو 17ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کی ہر کاوش کو سبوتاژ کرنے کی تھی چنانچہ وطن عزیز کے نام کی تبدیلی کا معاملہ کھٹائی میں پڑا تو اتحادی اے این پی کو سرحد کا نام پختونخوا رکھوانے کیلئے ہلہ شیری دے دی گئی کہ یہ نام دوسری جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) کو قابلِ قبول نہیں ہوگا تو اس تنازعہ میں ہی 18 ویں آئینی ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔
اے این پی کیلئے یہ مسئلہ سرے سے آئینی تو تھا ہی نہیں کیونکہ صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کو آئین کا تقاضہ بنایا جاتا تو چکنے چکنے پاتوں والے سرحدی گاندھی کے ہونہار بروا خان عبدالولی خاں 1973ءکے آئین کی منظوری کے مراحل میں اس مجوزہ آئین پر دستخط کرتے نہ اس کے حق میں ووٹ دیتے۔ جب یہ ایشو خالصتاً سیاسی تھا اور سرحدی گاندھی کا خانوادہ ان کی پختونستان کی حسرت کو جو درحقیقت ہندو بنئے کی اس ارض پاک کو منتشر کرنے کی گھناﺅنی سازش ہی کا حصہ تھی، پایہ تکمیل تک پہنچا کر اپنے باپو کی بھٹکتی روح کو تسکین پہنچانے کی تگ و دو میں تھا تو پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کو تو اس سازش کو ناکام بنانا اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرنا چاہئے تھا۔ پھر اس مسلم لیگ کے عوامی مقبولیت کے حامل (ن) گروپ کی قیادت کو کیا کسی نے مسمرائز کردیا تھا کہ وہ پختونخوا کے تقاضے کے آگے ڈھیر ہوتے چلے گئے۔حکمران پیپلز پارٹی کو تو یہی گمان ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) پختونخوا کے خلاف ڈٹ جائے گی جبکہ اے این پی حکومتی پچکاری کے عین مطابق صوبہ سرحد کی نام کی تبدیلی کو آئینی پیکیج کا حصہ بنانے پرمُصر رہے گی اس طرح 17 ویں آئینی ترمیم کے خاتمہ کی نوبت ہی نہیں آ پائے گی مگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے تو کمال ہی کردیا۔ پختونخوا کو اپنے تئیں قابلِ قبول بنانے کی خاطر اس میں لفظ خیبر کی آمیزش کردی اور پھر اس کی متفقہ منظوری کا طوق بھی اپنے گلے میں ڈال لیا۔
بھلا یہ ملک کے محب وطن حلقوں کیلئے کیسے گوارا ہوسکتا تھا چنانچہ اس سازش کے پر پھیلتے دیکھ کر مسلم لیگ (ن) کی سرحد تنظیم نے بھی اپنی قیادت کو اس پاگل پن سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ جب دال نہ گلی اور خیبر پختونخوا کی قومی اسمبلی میں منظوری کے ساتھ ہی میاں نوازشریف نے اس ”اتفاق رائے“ پر مبارکبادیں دینا اور وصول کرنا شروع کردیں تو ہزارہ ڈویژن کے عوام سے نہ رہا گیا اور وہ اپنے الگ صوبے کی تحریک اٹھا کر سڑکوں پر آگئے۔ انہیں اپنے صوبے کا مکار ہندو بنیاءکی گھناﺅنی سازش والا نام اپنے اوپر تھوپے جانے کے خلاف احتجاج کا تو بہرصورت حق حاصل تھا جسے سلب کرنے کیلئے اے این پی اور پیپلز پارٹی کی ملغوبہ سرحد حکومت نے ایبٹ آباد اور ہزارہ ڈویژن کے دیگر علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کردی۔ پھر اسی پر ہی اکتفا نہ کیا، خیبر پختونخوا کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرنے والے ہزارہ ڈویژن کے غیر پشتون شہریوں پر لاٹھی گولی پر مبنی ظلم و جبر کے ویسے ہی پہاڑ توڑنا شروع کردیئے جیسے مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی میں مصروف نہتے کشمیری باشندوں پر ظالم بھارتی فوج ٹوٹ پڑا کرتی ہے۔ پیر کے روز ایبٹ آباد کی سڑکوں، گلیوں، بازاروں میں نہتے باشندوں پر سرحد حکومت کے زیر کنٹرول پولیس نے جس بے دردی کے ساتھ لاٹھیاں، گولیاں اور آنسو گیس کے شیل برسائے کیا اس کے بعد پختونخوا کی بنیاءسازش کے بے نقاب ہونے میں کوئی کسر رہ گئی ہے۔ ان افسوسناک واقعات میں جان کے نذرانے پیش کرنے والے ہزارہ ڈویژن کے سات باشندوں اور سابق ڈپٹی سپیکر سمیت سو سے زائد زخمی ہونے والے باشندوں کے عزیز و اقارب کیا اب خاموش ہو کر بیٹھ جائیں گے جبکہ پورے ہزارہ ڈویژن میں خیبر پختونخوا کے خلاف عوامی جذبات مشتعل ہو چکے ہیں۔ اور حکومتی تیروں کے آگے جگر آزمانے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
سبحان اللہ! اب میاں نوازشریف وفاقی حکومت کو باورکرا رہے ہیں کہ ہم نے تو آپ کو پہلے ہی اس خطرہ سے آگاہ کردیا تھا۔ جناب! آپ کو اس خطرہ کا احساس تھا تو آپ خیبر پختونخوا کی منظوری کیلئے معاون بلکہ محرک بھی کیوں بنے تھے۔ جبکہ اب سینٹ میں اس کی منظوری کو رکوانے کیلئے بھی آپ کوئی فعال کردار ادا کرتے نظر نہیں آرہے۔
مولانا فضل الرحمان اپنی مفاداتی سیاست کی بنیاد پر صوبہ سرحد کیلئے خیبر پختونستان کے نام کو تخت لاہور کا فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ اب ان کی سیاسی بصیرت کی بھی آزمائش ہے، وہ چاہیں تو سینٹ میں صرف اپنی پارٹی کو خیبر پختونستان کے حق میں ووٹ دینے سے روک کر ہزارہ کے عوام کے دل جیت سکتے ہیں اور بیٹھے بٹھائے ہیرو بن سکتے ہیں۔ مسلم لیگ کے دیگر دھڑوں نے تو خیبر پختونخوا کے خلاف ڈٹ کر جرنیلی آمریت کو سہارا دینے والی اپنی ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر میاں نوازشریف کے کانوں تک اب بھی ہزارہ ڈویژن کے مشتعل عوام کے جذبات کی گونج نہیں پہنچی تو اپنے سیاسی مستقبل کی تاریکی کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔ اس وقت ضرورت ہزارہ ڈویژن کے عوام کے دل جیتنے کی ہے لیکن وہ تو ہزارہ کو صوبہ بنانے پر تلے ہوئے لگتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ پھر جنوبی پنجاب بھی صوبہ بنے گا محمد علی درانی صاحب اپنے لئے بہاول پور کو صوبہ بنوانا چاہتے ہیں۔ کراچی کو صوبہ بنانے سے پھر کون روک سکے گا۔ پاکستان کو صوبستان بنانے کے ذمہ دار بھی قبلہ میاں صاحب ہی ہوں گے بڑے میاں صاحب! سینٹ میں جو بھی پارٹی اور جو بھی پارٹی لیڈر خیبر پختونخوا کا ٹنٹا ہمیشہ کیلئے ختم کرانے کیلئے آگے بڑھے گا ہیروازم اس کے نام کے ساتھ منسوب ہو جائے گا۔ یہ بلی کے گلے میں گھنٹی ڈالنے کا نہیں، ملک کو بچانے کا سوال ہے۔ اس لئے اپنی مفاداتی سیاست کا خیال رکھنے اور سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کے بجائے ملک کی بقاءکے ساتھ کھڑے ہوجائیں۔ ورنہ اس نازک مقام پر جو بھی لڑھکے گا، وطن کی ناموس کو خاک میں ملانے والا کلنک کا ٹیکہ اس کے ماتھے پرجم جائے گا۔