سردار محمد اسلم سکھیرا ......
پاک امریکا سٹریٹیجک ڈائیلاگ پر اہل دانش نے کئی تاویلیں کر رکھی تھیں لیکن نتیجہ کیانکلا۔
پاکستان کیلئے پانی اور کشمیر کا مسئلہ سب سے اہم تھا۔ بھارت پاکستان کے دریائوں کا پانی ڈیم بنا کر روک رہا ہے اور بقول ہمارے ماہرین2012ء تک بھارت چناب، جہلم، سندھ کے دریائوں کی ایک بوند پانی بھی پاکستان میں نہیں آنے دیگا۔ وولر بیراج، کشن گنگا، بگلیہار ڈیم تو مکمل ہو چکے ہیں۔ اب ایک ڈیم چناب پر مزید بنایا جا رہا ہے اور سندھ دریا کے منبہ پر Tunnel بنا کر مدراس تک پانی لے جایا جائیگا۔ سندھ طاس معاہدہ میں ایک شق ہے جس کی رو سے بھارت بجلی گھر بنا سکتا ہے لیکن پانی زمین کی کاشت کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ رنجیت ڈیم بنا کر دریائے رادی کا پانی Spil over دریائے بیاس میں ڈال دیا گیا ہے اس طرح دریائے ستلج کا پانی Spil over جو پاکستان آتا تھا اس کو بھی دریائے بیاس میں ڈال دیا گیا ہے۔ یعنی ستلج وادی کا جو تھوڑ بہت پانی پاکستان آتا تھا اس کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے جو پاکستان کے دریا جہلم، چناب سندھ تھے ان پر بجلی گھر بنانے کے بہانے سے پاکستان پہنچنے سے روک دیا گیا ہے۔ پاکستان کی فرسٹ ڈیفنس لائن جو BRBD کینال تھی‘ اس میں پانی آنے سے روک دیا جائیگا۔
عالمی بنک IMF جس نے معاہدہ کرایا تھا وہ بھی امریکہ کے اشارے سے خاموش تماشی بنا ہوا ہے بھارت پاکستانی دریائوں کا پانی روکنے کے قابل اس لئے ہے کہ کشمیر جہاں سے یہ دریا نکلتے ہیں ان پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ جما لیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ریزولیوشن پر عملدرآمد استصواب کا تھا‘ اس سے انکاری ہوگیا ہے۔ کشمیر بقول قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اگر کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بنتا تو پاکستان کو صومالیہ بنانے ہیں بھارت کامیاب ہو جائیگا‘ اس لئے پاکستان کیلئے پانی اور کشمیر کے مسئلے زندگی موت کے مسئلے تھے۔ امریکہ نے ڈائیلاگ میں پانی اور کشمیر کے مسئلے کو زیر غور لانے سے صاف انکار کر دیا کہ بھارت امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر ہے اس کو ناراض نہیں کیا جا سکتا اس لئے امریکہ پانی یا کشمیر پر گفتگو ہی نہیں کریگا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ پاکستان کے مسائل پر بات نہیں کریگا۔ امریکہ کے اس رویہ سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو کہاں کامیابی ہوئی۔ امریکہ نے جن معاملوں پر مذاکرات کئے ان کی تفصیل تو منظر عام پر نہیں لائی گئی ماسوائے وزیر خارجہ کے خوش فہم بیانات کے اور ایک فوٹو کے جو شاہ محمود اور ہلیری کے سر جوڑ کر کھنچوائی گئی کہ یہ بھی ڈپلومیسی کے انداز ہیں امریکہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ کسی صورت بھارت کو ناراض کرکے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ترجیح نہیں دی جائیگی۔
امریکہ نے جو بھی مذاکرات کئے وہ افغانستان سے نٹیو فورسز کو باعزت طریقے سے نکالنے کی غرض سے کئے اور پاکستانی فوج کو کرائے کی فوج استعمال کرنے کیلئے کئے وزیر خارجہ نے فرمایا کہ اب امریکہ نے ڈومور کی کال نہیں دی۔ مرزا اسلم بیگ سابقہ فوجی کمانڈر انچیف کیمطابق سٹریٹیجک مذاکرات کے ذریعہ امریکہ نے اپنے مفادات حاصل کئے پاکستان کو کچھ نہیں ملا۔ مذاکرات میں ائرفورس کو طیارے اور فوج کو سامان اپنے مقاصد کیلئے دیئے۔ ایٹمی حیثیت سول نیو کلیر ٹیکنالوجی کی فراہمی اور کشمیر پر ہمیں جھنڈی دکھا دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے عمل کے ذریعے امریکہ نے اپنے مفادات حاصل کرنے اور ہمارے حصہ میں صرف ہلیری کلنٹن کی مسکراہٹ آئی۔ ہم بھول گئے کہ طالبان اور افغانستان سے لڑ کر روس کو نظریاتی اور عسکری شکست ہوئی اور پھر امریکہ نے طاقت کا استعمال کرکے دیکھ لیا پتھر چاٹنے پڑے۔ اب طالبان کیخلاف پاکستان کی مدد پاکستان کو خطرناک صورتحال سے دو چار کر دیگی۔ خدا را ہوش کے ناخن لیں۔ امریکہ کی ڈیکٹیشن پر جنرل ضیاء الحق سرگرم ہوئے تو کیا ہوا۔ پھر جنرل مشرف نے کردار ادا کیا تو کیا ہوا اور اب حکمران جو کرتے پھر رہے ہیں‘ اپنا انجام سوچ لیں بدقسمتی یہ ہے کہ عوام نے منتخب حکومت کو اپنا اعتماد اور مینڈیٹ دیا لیکن کرپٹ اور نااہل حکمرانوں نے سارا کچھ فوجی قیادت سامنے سرنڈر کر دیا اور سٹریٹیجک مذاکرات میں صرف ائرفورس کو جہاز اور فوج کو سامان اپنے مقاصد کیلئے دیدیا گیا سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی، کشمیر اور پانی پر ہمیں جھنڈی کرا دی گئی اور افسوسناک امر یہ ہے کہ وزیر خارجہ کامیابی کے ڈونگرے بجا رہے ہیں اور وہ خوش ہیں کہ ہلیری کلنٹن انکی طرف دیکھ کر مسکرا دی‘ حقیقت یہ ہے کہ وہ ان پر اور ان کی حکومت پر ہنس رہی تھیں حقیقت یہ ہے کہ ہمیں سٹریٹیجک ڈائیلاگ میں کچھ نہیں ملا اور امریکہ نے اپنے دونوں مقاصد حاصل کر لئے ہیں اور امریکی ایجنڈا کیمطابق اب اوباما افغانستان پہنچ چکے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اب طالبان کے خاتمہ کیلئے پاکستان اپنا کردار ادا کرے اور سرحد کے آر پار دہشت گردی کا خاتمہ یقینی بنائے مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ ان مذاکرات سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ یہ مذاکرات افغانستان میں طالبان کے خاتمہ کیلئے فوج کے کردار کے ضمن میں ہیں اور اگر ہم اسکا حصہ بنے تو یہ ہماری بہت بڑی غلطی اور بدقسمتی ہوگی اور یہ آگ پاکستان کے اندر بھی گھس آئیگی۔ ان سٹریٹیجک ڈائیلاگ کو کامیاب تب کیا جا سکتا تھا اگر پاکستان کے قرضے معاف کئے جاتے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو تسلیم کیا جاتا لیکن جو اعلان کیا گیا وہ وہی تھا جو کیری لوگر بل میں کہا گیا تھا۔ بار بار کہہ کر پاکستان کی تسلی کرانے کی کوشش کی گئی حکومت کمزور ہے اور امریکہ کے اشاروں پر ناچ رہی ہے۔
مرزا اسلم بیگ کا اندازہ صحیح ہے مذاکرات میں پاکستان کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان کی اقتصادی حالت تباہ ہو رہی ہے جو اقتصادی امداد دی جا رہی ہے‘ وہ آٹا میں نمک کے برابر ہے جب ہمارا خرچ اربوں میں ہے چند ڈالر لیکر ملک کوآگ میں جھوکنے سے کیا فائدہ ہوگا۔ اخباروں میں کرزئی افغانستان کے صدر نے بھی طالبان سے ملنے کا عندیہ دیا ہے جس پر امریکی ناراض ہیں۔ ہمیں اس آگ میں ہاتھ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔
اب زرداری صاحب کیانی صاحب جسٹس افتخار کو ملکی حالات دیکھنے کیلئے یکجا ہونا چاہئے اور ملک کی بقا کو مدنظر رکھتے ہوئے ملکی مفاد میں پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں۔ زرداری صاحب کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ موجودہ قومی اسمبلی آئین ساز اسمبلی نہیں ہے کہ آئین کی 92 شقوں کو تبدیل کرے۔
موجودہ حالات میں کنکرنٹ لسٹ کو ختم کرنا مرکز کو کمزور کرنے کا موجب بنے گا۔ مرکز کے کمزور ہونے سے مزید مشکلات پاکستان کیلئے بنیں گی۔ سرحد کا نام تبدیل کرنے سے ہزارہ ڈویژن کے لوگوں کو اعتراض ہے بین الاقوامی سازش کا بھی خطرہ ہے۔ اگر آئین کو تبدیل کرنا ہی مقصود ہے تو آئین ساز اسمبلی پہلے منتخب کی جائے جس کا مینڈیٹ آئین تبدیل کرنا ہو موجودہ اسمبلی کو آئین تبدیل کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔1973ء کے آئین میں جو تبدیلیاں آمروں نے کی تھیں‘ اس کی حد تک ان کو رہنا چاہیے تھا موجودہ اسمبلی کو آئین کی 92 شقیں تبدیل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ نواز شریف صاحب، زرداری صاحب کیانی صاحب اور چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار احمد چودھری پر لازم ہے کہ موجودہ آئینی ترمیم کو فی الحال روک دیا جائے۔ ملک میں آٹا نہیں چینی نہیں پانی نہیں۔ بجلی نہیں۔ اگر سچ پوچھیں تو کوئی لا اینڈ آرڈر نہیں۔ جو عام لوگوں کی ضروریات ہیں ان کو پورا کرنے کی کوشش کریں نئے ایشوپیدا نہ کریں۔ بھارت اربوں روپے ڈیفنس پر خرچ کر رہا ہے نئے میزائل کے تجربات کر رہاہے۔ نیوی، ایرفورس، فوج کو نئے سازوسامان سے لیس کر رہا ہے۔ بھارت، امریکہ، اسرائیل الحاق سے اسلامی دنیا کو مزید خطرات میں جھونک رہے ہیں یہ وقت ملکی بقا کی تجاویز مرتب کرنے کیلئے ہے آپس میں جھگڑے کرنے کیلئے نہیںججوں کی نئی تقرری کیلئے آئین میں دیئے گئے اصول ہی بہتر ہیں۔ سیاستدانوں کو یہ اختیار دینا مناسب نہیں۔ ججوں کی تعیناتی کیلئے جو 1973ء کے آئین میں طریقہ دیا ہوا ہے وہی صحیح ہے‘ عدالت کے فیصلوں میں تشریح شائد درست تھی۔ آئین کو ہی مقدم سمجھا جائے اور وہی طریقہ اختیار کیا جائے۔ البتہ260 آرٹیکل جو مشرف نے آئین میں شامل کی۔ اس کو منسوخ کرنا نہایت اہم ہے۔
ملک اس وقت خطرناک حالات سے گزر رہا ہے۔ ہر ادارہ اپنے دیئے گئے اختیارات کے اندر کام کرے تو بہتر ہوگا۔ سیاستدان بھی ذاتی اختلافات دور کرکے ملک کو بچانے کیلئے اکٹھے ہو جائیں نئے شوشے چھوڑنا بند کر دیں ہر ادارہ دوسرے ادارے کی عزت کرے۔ ذاتیات سے باہر ہو کر ملک کی سلامتی کیلئے کوشاں ہوں۔ ملک کو جس آگ میں جنرل مشرف جھونک گئے ہیں اس آگ کو بجھانے کی کوشش کرنی چاہیے جو اغیاروں کی شدید آگ میں پاکستان کو جھونکنے کے ارادے ہیں ان سے اجتناب کیا جائے۔
پاک امریکا سٹریٹیجک ڈائیلاگ پر اہل دانش نے کئی تاویلیں کر رکھی تھیں لیکن نتیجہ کیانکلا۔
پاکستان کیلئے پانی اور کشمیر کا مسئلہ سب سے اہم تھا۔ بھارت پاکستان کے دریائوں کا پانی ڈیم بنا کر روک رہا ہے اور بقول ہمارے ماہرین2012ء تک بھارت چناب، جہلم، سندھ کے دریائوں کی ایک بوند پانی بھی پاکستان میں نہیں آنے دیگا۔ وولر بیراج، کشن گنگا، بگلیہار ڈیم تو مکمل ہو چکے ہیں۔ اب ایک ڈیم چناب پر مزید بنایا جا رہا ہے اور سندھ دریا کے منبہ پر Tunnel بنا کر مدراس تک پانی لے جایا جائیگا۔ سندھ طاس معاہدہ میں ایک شق ہے جس کی رو سے بھارت بجلی گھر بنا سکتا ہے لیکن پانی زمین کی کاشت کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ رنجیت ڈیم بنا کر دریائے رادی کا پانی Spil over دریائے بیاس میں ڈال دیا گیا ہے اس طرح دریائے ستلج کا پانی Spil over جو پاکستان آتا تھا اس کو بھی دریائے بیاس میں ڈال دیا گیا ہے۔ یعنی ستلج وادی کا جو تھوڑ بہت پانی پاکستان آتا تھا اس کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے جو پاکستان کے دریا جہلم، چناب سندھ تھے ان پر بجلی گھر بنانے کے بہانے سے پاکستان پہنچنے سے روک دیا گیا ہے۔ پاکستان کی فرسٹ ڈیفنس لائن جو BRBD کینال تھی‘ اس میں پانی آنے سے روک دیا جائیگا۔
عالمی بنک IMF جس نے معاہدہ کرایا تھا وہ بھی امریکہ کے اشارے سے خاموش تماشی بنا ہوا ہے بھارت پاکستانی دریائوں کا پانی روکنے کے قابل اس لئے ہے کہ کشمیر جہاں سے یہ دریا نکلتے ہیں ان پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ جما لیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ریزولیوشن پر عملدرآمد استصواب کا تھا‘ اس سے انکاری ہوگیا ہے۔ کشمیر بقول قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اگر کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بنتا تو پاکستان کو صومالیہ بنانے ہیں بھارت کامیاب ہو جائیگا‘ اس لئے پاکستان کیلئے پانی اور کشمیر کے مسئلے زندگی موت کے مسئلے تھے۔ امریکہ نے ڈائیلاگ میں پانی اور کشمیر کے مسئلے کو زیر غور لانے سے صاف انکار کر دیا کہ بھارت امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر ہے اس کو ناراض نہیں کیا جا سکتا اس لئے امریکہ پانی یا کشمیر پر گفتگو ہی نہیں کریگا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ پاکستان کے مسائل پر بات نہیں کریگا۔ امریکہ کے اس رویہ سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو کہاں کامیابی ہوئی۔ امریکہ نے جن معاملوں پر مذاکرات کئے ان کی تفصیل تو منظر عام پر نہیں لائی گئی ماسوائے وزیر خارجہ کے خوش فہم بیانات کے اور ایک فوٹو کے جو شاہ محمود اور ہلیری کے سر جوڑ کر کھنچوائی گئی کہ یہ بھی ڈپلومیسی کے انداز ہیں امریکہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ کسی صورت بھارت کو ناراض کرکے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ترجیح نہیں دی جائیگی۔
امریکہ نے جو بھی مذاکرات کئے وہ افغانستان سے نٹیو فورسز کو باعزت طریقے سے نکالنے کی غرض سے کئے اور پاکستانی فوج کو کرائے کی فوج استعمال کرنے کیلئے کئے وزیر خارجہ نے فرمایا کہ اب امریکہ نے ڈومور کی کال نہیں دی۔ مرزا اسلم بیگ سابقہ فوجی کمانڈر انچیف کیمطابق سٹریٹیجک مذاکرات کے ذریعہ امریکہ نے اپنے مفادات حاصل کئے پاکستان کو کچھ نہیں ملا۔ مذاکرات میں ائرفورس کو طیارے اور فوج کو سامان اپنے مقاصد کیلئے دیئے۔ ایٹمی حیثیت سول نیو کلیر ٹیکنالوجی کی فراہمی اور کشمیر پر ہمیں جھنڈی دکھا دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے عمل کے ذریعے امریکہ نے اپنے مفادات حاصل کرنے اور ہمارے حصہ میں صرف ہلیری کلنٹن کی مسکراہٹ آئی۔ ہم بھول گئے کہ طالبان اور افغانستان سے لڑ کر روس کو نظریاتی اور عسکری شکست ہوئی اور پھر امریکہ نے طاقت کا استعمال کرکے دیکھ لیا پتھر چاٹنے پڑے۔ اب طالبان کیخلاف پاکستان کی مدد پاکستان کو خطرناک صورتحال سے دو چار کر دیگی۔ خدا را ہوش کے ناخن لیں۔ امریکہ کی ڈیکٹیشن پر جنرل ضیاء الحق سرگرم ہوئے تو کیا ہوا۔ پھر جنرل مشرف نے کردار ادا کیا تو کیا ہوا اور اب حکمران جو کرتے پھر رہے ہیں‘ اپنا انجام سوچ لیں بدقسمتی یہ ہے کہ عوام نے منتخب حکومت کو اپنا اعتماد اور مینڈیٹ دیا لیکن کرپٹ اور نااہل حکمرانوں نے سارا کچھ فوجی قیادت سامنے سرنڈر کر دیا اور سٹریٹیجک مذاکرات میں صرف ائرفورس کو جہاز اور فوج کو سامان اپنے مقاصد کیلئے دیدیا گیا سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی فراہمی، کشمیر اور پانی پر ہمیں جھنڈی کرا دی گئی اور افسوسناک امر یہ ہے کہ وزیر خارجہ کامیابی کے ڈونگرے بجا رہے ہیں اور وہ خوش ہیں کہ ہلیری کلنٹن انکی طرف دیکھ کر مسکرا دی‘ حقیقت یہ ہے کہ وہ ان پر اور ان کی حکومت پر ہنس رہی تھیں حقیقت یہ ہے کہ ہمیں سٹریٹیجک ڈائیلاگ میں کچھ نہیں ملا اور امریکہ نے اپنے دونوں مقاصد حاصل کر لئے ہیں اور امریکی ایجنڈا کیمطابق اب اوباما افغانستان پہنچ چکے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اب طالبان کے خاتمہ کیلئے پاکستان اپنا کردار ادا کرے اور سرحد کے آر پار دہشت گردی کا خاتمہ یقینی بنائے مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ ان مذاکرات سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ یہ مذاکرات افغانستان میں طالبان کے خاتمہ کیلئے فوج کے کردار کے ضمن میں ہیں اور اگر ہم اسکا حصہ بنے تو یہ ہماری بہت بڑی غلطی اور بدقسمتی ہوگی اور یہ آگ پاکستان کے اندر بھی گھس آئیگی۔ ان سٹریٹیجک ڈائیلاگ کو کامیاب تب کیا جا سکتا تھا اگر پاکستان کے قرضے معاف کئے جاتے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو تسلیم کیا جاتا لیکن جو اعلان کیا گیا وہ وہی تھا جو کیری لوگر بل میں کہا گیا تھا۔ بار بار کہہ کر پاکستان کی تسلی کرانے کی کوشش کی گئی حکومت کمزور ہے اور امریکہ کے اشاروں پر ناچ رہی ہے۔
مرزا اسلم بیگ کا اندازہ صحیح ہے مذاکرات میں پاکستان کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان کی اقتصادی حالت تباہ ہو رہی ہے جو اقتصادی امداد دی جا رہی ہے‘ وہ آٹا میں نمک کے برابر ہے جب ہمارا خرچ اربوں میں ہے چند ڈالر لیکر ملک کوآگ میں جھوکنے سے کیا فائدہ ہوگا۔ اخباروں میں کرزئی افغانستان کے صدر نے بھی طالبان سے ملنے کا عندیہ دیا ہے جس پر امریکی ناراض ہیں۔ ہمیں اس آگ میں ہاتھ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔
اب زرداری صاحب کیانی صاحب جسٹس افتخار کو ملکی حالات دیکھنے کیلئے یکجا ہونا چاہئے اور ملک کی بقا کو مدنظر رکھتے ہوئے ملکی مفاد میں پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں۔ زرداری صاحب کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ موجودہ قومی اسمبلی آئین ساز اسمبلی نہیں ہے کہ آئین کی 92 شقوں کو تبدیل کرے۔
موجودہ حالات میں کنکرنٹ لسٹ کو ختم کرنا مرکز کو کمزور کرنے کا موجب بنے گا۔ مرکز کے کمزور ہونے سے مزید مشکلات پاکستان کیلئے بنیں گی۔ سرحد کا نام تبدیل کرنے سے ہزارہ ڈویژن کے لوگوں کو اعتراض ہے بین الاقوامی سازش کا بھی خطرہ ہے۔ اگر آئین کو تبدیل کرنا ہی مقصود ہے تو آئین ساز اسمبلی پہلے منتخب کی جائے جس کا مینڈیٹ آئین تبدیل کرنا ہو موجودہ اسمبلی کو آئین تبدیل کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔1973ء کے آئین میں جو تبدیلیاں آمروں نے کی تھیں‘ اس کی حد تک ان کو رہنا چاہیے تھا موجودہ اسمبلی کو آئین کی 92 شقیں تبدیل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ نواز شریف صاحب، زرداری صاحب کیانی صاحب اور چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار احمد چودھری پر لازم ہے کہ موجودہ آئینی ترمیم کو فی الحال روک دیا جائے۔ ملک میں آٹا نہیں چینی نہیں پانی نہیں۔ بجلی نہیں۔ اگر سچ پوچھیں تو کوئی لا اینڈ آرڈر نہیں۔ جو عام لوگوں کی ضروریات ہیں ان کو پورا کرنے کی کوشش کریں نئے ایشوپیدا نہ کریں۔ بھارت اربوں روپے ڈیفنس پر خرچ کر رہا ہے نئے میزائل کے تجربات کر رہاہے۔ نیوی، ایرفورس، فوج کو نئے سازوسامان سے لیس کر رہا ہے۔ بھارت، امریکہ، اسرائیل الحاق سے اسلامی دنیا کو مزید خطرات میں جھونک رہے ہیں یہ وقت ملکی بقا کی تجاویز مرتب کرنے کیلئے ہے آپس میں جھگڑے کرنے کیلئے نہیںججوں کی نئی تقرری کیلئے آئین میں دیئے گئے اصول ہی بہتر ہیں۔ سیاستدانوں کو یہ اختیار دینا مناسب نہیں۔ ججوں کی تعیناتی کیلئے جو 1973ء کے آئین میں طریقہ دیا ہوا ہے وہی صحیح ہے‘ عدالت کے فیصلوں میں تشریح شائد درست تھی۔ آئین کو ہی مقدم سمجھا جائے اور وہی طریقہ اختیار کیا جائے۔ البتہ260 آرٹیکل جو مشرف نے آئین میں شامل کی۔ اس کو منسوخ کرنا نہایت اہم ہے۔
ملک اس وقت خطرناک حالات سے گزر رہا ہے۔ ہر ادارہ اپنے دیئے گئے اختیارات کے اندر کام کرے تو بہتر ہوگا۔ سیاستدان بھی ذاتی اختلافات دور کرکے ملک کو بچانے کیلئے اکٹھے ہو جائیں نئے شوشے چھوڑنا بند کر دیں ہر ادارہ دوسرے ادارے کی عزت کرے۔ ذاتیات سے باہر ہو کر ملک کی سلامتی کیلئے کوشاں ہوں۔ ملک کو جس آگ میں جنرل مشرف جھونک گئے ہیں اس آگ کو بجھانے کی کوشش کرنی چاہیے جو اغیاروں کی شدید آگ میں پاکستان کو جھونکنے کے ارادے ہیں ان سے اجتناب کیا جائے۔