ڈاکٹر علی اکبر الازہری ۔۔۔
آزاد کشمیر کے موجودہ وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان ایک بھلے مانس شریف النفس اور اصول پسند شخص ہیں۔ انکے والد راجہ حیدر خان کا شمار تحریکِ حریتِ کشمیر کے ان نمایاں قائدین میں ہوتا ہے جنہوں نے ڈوگرہ راج کیخلاف سیاسی و عسکری جدوجہد جاری رکھی اور قیام پاکستان کے وقت شیخ عبد اللہ کی ہندو نواز پالیسی کے برعکس الحاق پاکستان کا نعرہ بلند کیا۔
بزرگ سیاستدان سردار عبد القیوم انہی کی قائم کردہ جماعت مسلم کانفرنس کے پر جوش رکن تھے جو بعد ازاں اس سیاسی جماعت کے قائد کئی دہائیوں تک آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم بنتے رہے۔ راجہ حیدر خان مرحوم سے دیرینہ تعلق محبت کے پیش نظر انہوں نے مصروف کار نوجوان راجہ فاروق حیدر کو خارزارِ سیاست میں بلایا، اسمبلی کا ٹکٹ دیا اور حسب ضرورت انکی سرپرستی اور سیاسی تربیت بھی جاری رکھی۔
سردار عبد القیوم نے پیرانہ سالی اور طویل حکومتی مشق کے بعد قیادت اپنی اگلی نسل میں منتقل کرنا چاہی تو انکے نوجوان جوشیلے فرزند سردار عتیق اس بارِ امانت کو قبول کرنے کیلئے دامن پھیلائے کھڑے تھے۔ منظر پر اُبھرتے ہوئے حصول اقتدار کی جدوجہد میں ان سے بھی وہی غلطیاں ہوئیں جو اس میدان میں عام انسانی کمزوری سمجھی جاتی ہیں۔ چنانچہ سردار عبد القیوم کے اصول پسند سیاسی کارکن راجہ فاروق حیدر اور سردار عتیق کے درمیان مخالفت خاصی گہری ہوتی چلی گئی۔ پارٹی کے اندر قیادت کے نظریاتی اور نسبی بیٹوں کی اس مخالفت نے جلد ہی دھڑے بندی کی شکل اختیار کر لی جو سردار سکندر گروپ اور سردار عتیق گروپ کی صورت میں سامنے آئی اور وہ تقسیم آج بھی موجود ہے۔
گذشتہ سال جب اسلام آباد کی مداخلت اور اندرونی انتشار کے سبب ’’تیز رفتار‘‘ وزیر اعظم سردار عتیق کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو اس میں بھی یہی دیرینہ مخاصمت کار فرما تھی اور 9 ماہ تک وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز رہنے والے سردار یعقوب راجہ فاروق کے ہی حمایت یافتہ تھے۔ بالآخر وہ بھی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط نہ رکھ سکے تو انکے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد پیش ہوگئی اس بار اگرچہ سردار عتیق اہم محرک تھے مگر اس مرتبہ انہوں نے نسبتاً تدبر سے کام لیا۔ انہوں نے ان تحاریک عدم اعتماد کے دوسرے اہم فریق راجہ فاروق حیدر کو وزارتِ عظمی کیلئے نامزد کرکے خود پارٹی صدارت سنبھالنے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا جو ان کی دور اندیشی اور پختگی کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ سردار عتیق اور راجہ فاروق حیدر کے درمیان صلح صفائی کے اس مرحلے پر دونوں بزرگ سرداروں کو کسی قدر اطمینان ہوا ہی تھا کہ اب مقتدر مسلم کانفرنس کے دو بڑے حکومتی عہدیدار ’’راجوں‘‘ کے درمیان نئی رسہ کشی شروع ہو چکی ہے۔ یہ رسہ کشی کسی سیاسی اختلاف کے باعث شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کا سبب خود انہی کا پیدا کردہ عدالتی بحران ہے۔
صدر کی عدم موجودگی میں قائمقام صدر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کی سفارش پر وزارت قانون نے 3 اپریل کو آزاد کشمیر عبوری ایکٹ 1974 کی دفعہ 42-E کے تحت چیف جسٹس سپریم کورٹ ریاض اختر کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا اور انہیں انکوائری رپورٹ آنے تک غیر فعال قرار دیدیا۔ اگلے ہی لمحے چیف جسٹس نے اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کے ذریعے اس کارروائی کو مسترد کر دیا اور اعلان کیا کہ میں بدستور آئینی چیف جسٹس ہوں۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے گذشتہ عدالتی بحران کے بعد یہ دوسرا غیر معمولی واقعہ تھا جس کی حساس صورتحال کو دیکھتے ہوئے صدر راجہ ذوالقرنین برطانیہ سے اپنا دورہ مختصر کرکے واپس آئے۔ انہوں نے آتے ہی اسلام آباد کے چند ’’بڑوں‘‘ اور ’’بزرگوں‘‘ سے ملاقات کی اور اپنی عدم موجودگی میں ہونے والی معزولی کو کالعدم قرار دے دیا۔
اس صدارتی حکمنامے کو چیلنج کرنے کیلئے راجہ فاروق حیدر نے وزیر قانون اور وزیر اطلاعات کے ہمراہ پریس کانفرنس کی اور انہیں یاد دلایا کہ صدر آزاد کشمیر (18 ویں ترمیم کی منظوری سے پہلے والے) صدر پاکستان نہیں بلکہ وہ آزاد کشمیر کے صدر ہیں جو آئینی طور پر وزیر اعظم کی تجویز پر عملدر آمد کے پابند ہیں۔ وزریراعظم کے اختلافی رد عمل کے بعد جو صورتحال پیدا ہوچکی ہے اسکے درج ذیل مضمرات سامنے آچکے ہیں۔
٭ اعلیٰ عدلیہ اعلیٰ ترین ججوں کے ہاتھوں دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔
٭ صدر آزاد کشمیر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر دونوں اپنے اپنے دلائل دے رہے ہیں۔ دونوں کے ساتھ قانونی اور آئینی ماہرین کی تعداد قابلِ ذکر حد تک موجود ہے۔
٭ اِس کشمکش اقتدار نے عدالتی اور آئینی بحران پیدا کر دیا ہے۔ آزاد خطے کے وکلاء جو دو سال قبل پاکستان کی جسٹس بحالی تحریک میں بھی سرگرم رہے ہیں اس وقت دو حصوں میں منقسم ہو چکے ہیں۔ یہ صورت حال روز بہ روز حساس تر ہو رہی ہے۔
٭ چھوٹے سے خطے کے دو مقتدر راجے اپنے اپنے آبائی علاقوں کے عوام اور عوامی نمائندوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں سرکاری فنڈز خرچ کئے جا رہے ہیں۔ آزاد کشمیر پہلی بار واضح طور پر مظفر آباد اور میرپور کی تقسیم اور عصبیت میں الجھ گیا ہے۔
٭ غالب امکان یہ ہے کہ جو ڈیشنل کونسل میں دائر ریفرنس کا فیصلہ جسٹس ریاض اختر کیخلاف آئیگا اور اس فیصلے کو صدر اور معزول چیف جسٹس نے قبل از وقت ہی اپنے قول و عمل سے چیلنج کر دیا ہے۔ لہٰذا نتائج کوئی زیادہ اچھے نہیں ہونگے۔
٭ آزاد کشمیر میں سردار عبد القیوم، سردار ابراہیم، سردار سکندر حیات جیسے بزرگ سیاستدانوں کی نظریاتی سیاست کو دھچکا لگا ہے۔ لوگ برادری ازم کی لعنت میں مبتلا ہو کر علاقائی عصبیت کے بتوں کو پہلے سے زیادہ پوجنا شروع کر دینگے۔
اس موقع پر سردار سکندر حیات اور سردار عبدالقیوم بلاتاخیر اپنی اپنی آرام گاہوں سے باہر نکلیں اور اپنے ہم جماعت بلکہ ’’پروردہ راجوں‘‘ کے درمیان وسیع تر ملکی مفادات کی خاطر مفاہمت کروائیں۔ جسٹس گیلانی تو ویسے بھی چند مہینوں کے مہمان ہیں۔ انہیں جسٹس ڈوگر بن کر رخصت نہیں ہونا چاہیے اور جسٹس ریاض اختر عوامی حمایت کے ذریعے جسٹس افتخار چودھری بننے کے خواب دیکھنے کی بجائے آئینی چارہ جوئی کریں۔ ہمارے پڑوس میں ہمارا ازلی دشمن ہماری ان بچگانہ مخاصمانہ حرکات پر ہنس رہا ہے اور مسائل کی چکی میں چور عوام ویسے ہی پورے ملک کے سیاسی اور حکومتی ڈھانچے پر برہم ہیں۔
آزاد کشمیر کے موجودہ وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان ایک بھلے مانس شریف النفس اور اصول پسند شخص ہیں۔ انکے والد راجہ حیدر خان کا شمار تحریکِ حریتِ کشمیر کے ان نمایاں قائدین میں ہوتا ہے جنہوں نے ڈوگرہ راج کیخلاف سیاسی و عسکری جدوجہد جاری رکھی اور قیام پاکستان کے وقت شیخ عبد اللہ کی ہندو نواز پالیسی کے برعکس الحاق پاکستان کا نعرہ بلند کیا۔
بزرگ سیاستدان سردار عبد القیوم انہی کی قائم کردہ جماعت مسلم کانفرنس کے پر جوش رکن تھے جو بعد ازاں اس سیاسی جماعت کے قائد کئی دہائیوں تک آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم بنتے رہے۔ راجہ حیدر خان مرحوم سے دیرینہ تعلق محبت کے پیش نظر انہوں نے مصروف کار نوجوان راجہ فاروق حیدر کو خارزارِ سیاست میں بلایا، اسمبلی کا ٹکٹ دیا اور حسب ضرورت انکی سرپرستی اور سیاسی تربیت بھی جاری رکھی۔
سردار عبد القیوم نے پیرانہ سالی اور طویل حکومتی مشق کے بعد قیادت اپنی اگلی نسل میں منتقل کرنا چاہی تو انکے نوجوان جوشیلے فرزند سردار عتیق اس بارِ امانت کو قبول کرنے کیلئے دامن پھیلائے کھڑے تھے۔ منظر پر اُبھرتے ہوئے حصول اقتدار کی جدوجہد میں ان سے بھی وہی غلطیاں ہوئیں جو اس میدان میں عام انسانی کمزوری سمجھی جاتی ہیں۔ چنانچہ سردار عبد القیوم کے اصول پسند سیاسی کارکن راجہ فاروق حیدر اور سردار عتیق کے درمیان مخالفت خاصی گہری ہوتی چلی گئی۔ پارٹی کے اندر قیادت کے نظریاتی اور نسبی بیٹوں کی اس مخالفت نے جلد ہی دھڑے بندی کی شکل اختیار کر لی جو سردار سکندر گروپ اور سردار عتیق گروپ کی صورت میں سامنے آئی اور وہ تقسیم آج بھی موجود ہے۔
گذشتہ سال جب اسلام آباد کی مداخلت اور اندرونی انتشار کے سبب ’’تیز رفتار‘‘ وزیر اعظم سردار عتیق کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو اس میں بھی یہی دیرینہ مخاصمت کار فرما تھی اور 9 ماہ تک وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز رہنے والے سردار یعقوب راجہ فاروق کے ہی حمایت یافتہ تھے۔ بالآخر وہ بھی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط نہ رکھ سکے تو انکے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد پیش ہوگئی اس بار اگرچہ سردار عتیق اہم محرک تھے مگر اس مرتبہ انہوں نے نسبتاً تدبر سے کام لیا۔ انہوں نے ان تحاریک عدم اعتماد کے دوسرے اہم فریق راجہ فاروق حیدر کو وزارتِ عظمی کیلئے نامزد کرکے خود پارٹی صدارت سنبھالنے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا جو ان کی دور اندیشی اور پختگی کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ سردار عتیق اور راجہ فاروق حیدر کے درمیان صلح صفائی کے اس مرحلے پر دونوں بزرگ سرداروں کو کسی قدر اطمینان ہوا ہی تھا کہ اب مقتدر مسلم کانفرنس کے دو بڑے حکومتی عہدیدار ’’راجوں‘‘ کے درمیان نئی رسہ کشی شروع ہو چکی ہے۔ یہ رسہ کشی کسی سیاسی اختلاف کے باعث شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کا سبب خود انہی کا پیدا کردہ عدالتی بحران ہے۔
صدر کی عدم موجودگی میں قائمقام صدر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کی سفارش پر وزارت قانون نے 3 اپریل کو آزاد کشمیر عبوری ایکٹ 1974 کی دفعہ 42-E کے تحت چیف جسٹس سپریم کورٹ ریاض اختر کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا اور انہیں انکوائری رپورٹ آنے تک غیر فعال قرار دیدیا۔ اگلے ہی لمحے چیف جسٹس نے اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کے ذریعے اس کارروائی کو مسترد کر دیا اور اعلان کیا کہ میں بدستور آئینی چیف جسٹس ہوں۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے گذشتہ عدالتی بحران کے بعد یہ دوسرا غیر معمولی واقعہ تھا جس کی حساس صورتحال کو دیکھتے ہوئے صدر راجہ ذوالقرنین برطانیہ سے اپنا دورہ مختصر کرکے واپس آئے۔ انہوں نے آتے ہی اسلام آباد کے چند ’’بڑوں‘‘ اور ’’بزرگوں‘‘ سے ملاقات کی اور اپنی عدم موجودگی میں ہونے والی معزولی کو کالعدم قرار دے دیا۔
اس صدارتی حکمنامے کو چیلنج کرنے کیلئے راجہ فاروق حیدر نے وزیر قانون اور وزیر اطلاعات کے ہمراہ پریس کانفرنس کی اور انہیں یاد دلایا کہ صدر آزاد کشمیر (18 ویں ترمیم کی منظوری سے پہلے والے) صدر پاکستان نہیں بلکہ وہ آزاد کشمیر کے صدر ہیں جو آئینی طور پر وزیر اعظم کی تجویز پر عملدر آمد کے پابند ہیں۔ وزریراعظم کے اختلافی رد عمل کے بعد جو صورتحال پیدا ہوچکی ہے اسکے درج ذیل مضمرات سامنے آچکے ہیں۔
٭ اعلیٰ عدلیہ اعلیٰ ترین ججوں کے ہاتھوں دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔
٭ صدر آزاد کشمیر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر دونوں اپنے اپنے دلائل دے رہے ہیں۔ دونوں کے ساتھ قانونی اور آئینی ماہرین کی تعداد قابلِ ذکر حد تک موجود ہے۔
٭ اِس کشمکش اقتدار نے عدالتی اور آئینی بحران پیدا کر دیا ہے۔ آزاد خطے کے وکلاء جو دو سال قبل پاکستان کی جسٹس بحالی تحریک میں بھی سرگرم رہے ہیں اس وقت دو حصوں میں منقسم ہو چکے ہیں۔ یہ صورت حال روز بہ روز حساس تر ہو رہی ہے۔
٭ چھوٹے سے خطے کے دو مقتدر راجے اپنے اپنے آبائی علاقوں کے عوام اور عوامی نمائندوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں سرکاری فنڈز خرچ کئے جا رہے ہیں۔ آزاد کشمیر پہلی بار واضح طور پر مظفر آباد اور میرپور کی تقسیم اور عصبیت میں الجھ گیا ہے۔
٭ غالب امکان یہ ہے کہ جو ڈیشنل کونسل میں دائر ریفرنس کا فیصلہ جسٹس ریاض اختر کیخلاف آئیگا اور اس فیصلے کو صدر اور معزول چیف جسٹس نے قبل از وقت ہی اپنے قول و عمل سے چیلنج کر دیا ہے۔ لہٰذا نتائج کوئی زیادہ اچھے نہیں ہونگے۔
٭ آزاد کشمیر میں سردار عبد القیوم، سردار ابراہیم، سردار سکندر حیات جیسے بزرگ سیاستدانوں کی نظریاتی سیاست کو دھچکا لگا ہے۔ لوگ برادری ازم کی لعنت میں مبتلا ہو کر علاقائی عصبیت کے بتوں کو پہلے سے زیادہ پوجنا شروع کر دینگے۔
اس موقع پر سردار سکندر حیات اور سردار عبدالقیوم بلاتاخیر اپنی اپنی آرام گاہوں سے باہر نکلیں اور اپنے ہم جماعت بلکہ ’’پروردہ راجوں‘‘ کے درمیان وسیع تر ملکی مفادات کی خاطر مفاہمت کروائیں۔ جسٹس گیلانی تو ویسے بھی چند مہینوں کے مہمان ہیں۔ انہیں جسٹس ڈوگر بن کر رخصت نہیں ہونا چاہیے اور جسٹس ریاض اختر عوامی حمایت کے ذریعے جسٹس افتخار چودھری بننے کے خواب دیکھنے کی بجائے آئینی چارہ جوئی کریں۔ ہمارے پڑوس میں ہمارا ازلی دشمن ہماری ان بچگانہ مخاصمانہ حرکات پر ہنس رہا ہے اور مسائل کی چکی میں چور عوام ویسے ہی پورے ملک کے سیاسی اور حکومتی ڈھانچے پر برہم ہیں۔