بین الافغان مذاکرات کی کامیابی کیلئے تمام نظریں دوحہ مذاکرات پر ہیں افغان امن عمل کے لیے یہ مذاکرات انتہائی اہم ہیں اس سلسلے میں اہم امر یہ ہے کہ گزشتہ دنوں افغان امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بھی کی گئیںمقصد یہ تھا کہ طالبان قیدیوں کی رہائی میں رکاوٹ کی صورت میں وہ امریکہ کے ساتھ معاہدہ توڑنے کا اعلان کر دیں ۔ موجودہ عالمی حالات میں امن مذاکرات کے آغاز کو انتہائی اہمیت کا حامل اور مسائل کے حل کے لیے خوش آئند اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے لیے مذاکرات کی کامیابی انتہائی اہم ہے اس سلسلے میں مذاکراتی ٹیم کے تمام ارکان وہاں پہنچ چکے ہیں توقع کے مطابق زلمے خلیل زاد سے مذاکرات میں طالبان وفد کے سربراہ عبدالغنی افغان امن مذاکرات میں طالبان کے قائد ہوں گے اس سلسلے میں آسٹریلیا اور فرانس نے چھ قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے اعتراض کیا تاہم طالبان نے اس معاملے کو سفارت کاری کے ذریعے احسن طریقے سے حل کیا کہ مخالفین بھی ششدر رہ گئے اس حوالے سے د وحہ سے اہم اطلاعات یہی ہیں کہ چھوٹے تکنیکی مسائل کے حل کے بعد مذاکرات شروع ہوں گے واضح رہے کہ امریکی صدر نومبر میں ہونے والے امریکی انتخابات سے قبل کسی بھی صورت یہ مسئلہ حل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے ‘گزشتہ کئی دہائیوں سے جنگ زدہ افغانوں کو امن و راحت نصیب ہو گی اس ضمن میں طالبان کے حوالے سے اعلی ظرف عمل کی توقعات وابستہ کی جارہی ہیں صورتحال حوصلہ افزا ہونے کی صورت میں امن عمل کا یہ دوسرا اہم قدم کامیابی سے ہمکنار ہوگا امریکہ اور طالبان میں معاہدے کے تحت 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کیا جانا ہے قابل ذکر امر یہ ہے کہ کابل حکومت نے 4 ہزار6 سو قیدیوں کو کسی رکاوٹ کے بنا ہی چھوڑ دیا تاہم باقی چار سو قیدیوں کو رہا کرنے سے صاف انکار کر دیا اس سلسلے میں طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے مطابق مذاکرات کا آغاز مارچ میں ہی ہونا تھا تاہم قیدیوں کے تبادلے اور کشیدگی پر اختلاف کے سبب مذاکرات میں مسلسل تاخیر ہوتی رہی اس اہم امر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ امن مخالفین صدر ٹرمپ کی سخت پالیسی کے باعث کامیاب نہ ہوسکے مخالفین کی نظریں امریکی انتخابات پر مرکوز ہیں طالبان نے سفارتکاری کے ذریعے امریکہ کو مجبور کردیا ہے کہ معاہدے کی پاسداری کے لیے اقدامات کرے اشرف غنی انتظامیہ کو ہدایت بھی دی گئی اس ضمن میں کابل انتظامیہ کی پوری کوشش یہی رہی کہ قیدیوں کی رہائی عمل میں نہ لائی جا سکے آسٹریلیا اور فرانس کا سات افراد کی رائے پر نکتہ اعتراض یہ تھا کہ طالبان رہنما فوجیوں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں پاکستان افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے بھارت اور اس کی ہم نوا کابل حکومت پاکستان کے خلاف سازشوں کے جو حربے آزمانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں یہ امرکسی سے ڈھکا چھپا نہیں بھارتی اور افغان خفیہ ایجنسیوں کے کارنامے بھی سرفہرست ہیں پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں کو بروئے کار لانے کے مقاصد افغان امن عمل کے لیے پاکستان اور امریکہ کی مشترکہ کوششوں کو سبوتاژ کرنا ہے خطے میں امن و استحکام کے لئے افغان امن مذاکرات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں طالبان نے کامیاب سفارتکاری کے ذریعے کابل حکومت کو اسی کے غیرضروری ارادوں میں ناکامی سے دوچار کیا اہم امر یہ ہے کہ امریکہ کے لیے اپنے اتحادیوں کو نظرانداز کرنا ناممکن ہے امریکی دباؤ کی وجہ سے کابل انتظامیہ نے چار سو میں سے تین سو تراسی قیدیوں کو رہا کردیا تھا بقیہ سات قیدیوں کو طالبان کی جانب سے رہا کر کے قطر بھیج دینے کا فیصلہ کیا گیا اس سلسلے میں طے یہ پایا گیا کہ آزاد قیدی قطر میں بین الاقوامی مانیٹرنگ میں رہیں گے افغان امن عمل کے خلاف بھارت کی پریشانی کا سازشوں میں تبدیل ہونا کوئی حیرت انگیز عمل نہیں پاکستان نے اس ضمن میں سازشوں کا ذمہ دار بھارت کو قرار دیا تاہم اشتعال انگیزیوں کے باوجود امن مذاکرات کا سلسلہ نتیجہ خیز ثابت ہونے کی توقع کی جا رہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانستان میں تشدد بھرے واقعات کی روک تھام ہونی چاہیئے یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ افغانستان کے کشیدہ حالات براہ راست پاکستان پر اثر انداز ہوتے ہیں خوش آئند امر یہ ہے کہ افغان مسئلے کے فریقین کو بھی پاکستان کے موقف کا ادراک ہو گیا ہے پاکستان کی افغان مذاکرات کے لیے کوششیں رنگ لے آئیں جن کا نتیجہ افغانستان امن مذاکرات کی صورت دیکھنے میں آ رہا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38