اتوار‘ 24 محرم الحرام 1442ھ‘ 13 ؍ ستمبر 2020ء
زیادتی کے مجرموں کو سزائے موت‘ پی ٹی آئی حامی، پی پی مخالفت، شجاعت کوڑے مارنے کے حامی۔
ویسے تو میڈیا پر دیکھیں ہر جگہ پی پی والے آسمان سر پر اٹھائے نظر آتے ہیں۔ خواتین اور بچوں سے زیادتی کے واقعات پر وہ بیان بازی ہوتی ہے کہ لگتا ہے پیپلزپارٹی کے بس میں ہوتا تو وہ ایسے لوگوں کو گولی سے اڑا دیتی یا پھانسی پر لٹکا دیتی مگر افسوس یہ سب کچھ عوام کے جذبات دیکھ کر کہا جا رہا ہے۔ جب اسمبلی میں ایسے لوگوں کیلئے سزائے موت کی بات ہونے لگی ہے تو پیپلزپارٹی والے سزائے موت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ سندھ میں بھی ایسے بے شمار درندے موجود ہیں جو اس قانون کے بعد پھانسی کے پھندے پر جھولتے نظر آئیں گے، کیا یہ ان کو بچانے کی کوشش تو نہیں۔ پی ٹی آئی والے خاصے لبرل ہیں، اس میں مذہبی شدت پسندی والی سوچ بھی نہیں۔ اس لحاظ سے خاصی حیرت کی بات ہے کہ وہ زیادتی کے مجرموں کو سزائے موت دینے کی حامی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عوام کی رائے کو مقدم رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک وزیر فیصل ووڈانے تو ایسے مجرموں کو نامرد بنانے کی تجویز بھی دی ہے اور اس کو منظور کرانے کیلئے وہ پرعزم بھی ہیں۔ ویسے یہ سزا بھی خاصی خوفناک ہے۔ چودھری شجاعت جو ق لیگ کے سربراہ ہیں۔ وہ ایسے مجرموں کو کوڑے مارنے کی سزا کے حق میں ہیں مگر وہ بھول رہے ہیں کہ کوڑے غیرشادی افراد کو مارے جاتے ہیں جبکہ شادی شدہ درندوں کو سنگسار کیا جاتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس بارے میں کچھ فیصلہ ہوتا بھی ہے یا نہیں کیونکہ ہمارے ہاں ہر سانحے کے بعد چند روز شور ہوتا ہے، بعد میں وہی قبرستان والی خاموشی چھا جاتی ہے۔ جس دن یہ خاموشی ختم ہو گی اور اندر باہر شور اٹھے گا تو اس روز کوئی بھی مجرم باقی نہیں رہے گا۔
٭٭٭٭٭٭
ڈینگی کا خطرہ‘ پنجاب میں انتظامیہ کو الرٹ کر دیا گیا
صوبائی وزیر صحت نے شہریوں کو ڈینگی سے بچانے کیلئے فوری اقدامات کی جو ہدایت کی ہے، ان کا فائدہ تو تب ہی ہو گا کہ جب ان پر عمل ہو گا۔ 2 سال سے لوگ گواہ ہیں کہ ڈینگی کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی گئی۔ صرف ہسپتالوں میں پرانے بینر اور کاؤنٹر پر ڈینگی لکھا نظر آتا ہے۔ کھڑے پانی کے جوہڑ، گندگی کے ڈھیر ہٹانا شاید مناسب نہیں سمجھا گیا۔ موسم بدل رہا ہے، یہ موسم ڈینگی و دیگر مچھروں کی افزائش کا آئیڈیل موسم ہوتا ہے۔ اس لئے ملیریا اور ڈینگی پھیلانے والے دونوں مچھر حملہ آور ہونے لگے ہیں۔ انتظامیہ کو تو الرٹ رہنے کا حکم دیدیا گیا ہے مگر ان سے کچھ نہیں ہونا کیونکہ یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔ عوام کو ازخود بھی الرٹ ہونا پڑیگا۔ گھروں میں پانی کھڑا ہونے نہیں دینا۔ مچھر مار سپرے کرنا ہو گا۔ خود کو مچھروں سے بچانا پڑیگا۔ یہ کام انتظامیہ نے نہیں کرنے، میڈیا پر اشتہار دیکر خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔ سابقہ حکومت کے ڈینگی کیخلاف جنگی اقدامات سب کے سامنے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت بھی ویسے ہی ڈینگی کے خلاف جت جائے تو کامیابی مل سکتی ہے ورنہ ملیریا، ڈینگی اور کرونا تو شیطانی اتحاد ثلاثہ ہے جو پوری دنیا کو ناکوں چنے چبواتا ہے۔ ہماری تو حالت ویسے ہی پتلی ہے۔ ہاں اگر اب بھی کرونا کیخلاف جنگ کی طرح مؤثر حکمت عملی اپنائی جائے تو ڈینگی کو روکا جا سکتا ہے اس سالے مچھر کی اوقات ہی کیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
موٹروے پر ڈاکوئوں نے متعدد گاڑیوں کو لوٹ لیا
یا الٰہی! یہ ماجرا کیا ہے۔ یہ موٹروے پر بھی اندرون سندھ اور پنجاب کی غیرمحفوظ سڑکوں والی داستان کیوں دہرائی جانے لگی ہے۔ زیادتی کا سانحہ ابھی تازہ تھا کہ موٹروے پر درخت کاٹ کر پھینک کر دیہی علاقوں کی سڑکوں کی طرح ڈاکوئوں نے سڑک بند کرکے گاڑیوں کو بھی لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ موٹروے ایک ماڈل تھا، محفوظ اور آرام دہ سفر کیلئے۔ اب تو دو سال میں ہی لوگوں نے سڑک کے اردگرد لگا جنگلہ کاٹ کر بیچ دیا اور کئی مقامات سے موٹروے پر گھسنے کی راہ نکال لی ہے۔ یہ سب جرائم پیشہ افراد کی کارستانی ہے، چلو مان لیتے ہیں مگر یہ جوٹوں ٹوں بجاتی موٹروے پولیس پہلے ہر وقت موٹروے پر گشت کرتی پھرتی تھی، جس کی برق رفتاری سے فوری مدد کو پہنچنے کے قصے عام تھے، ان کو کیا ہوگیا ہے۔ کونسی بیماری لاحق ہوگئی ہے کہ وہ اب معذور ہو کر رہ گئی ہے۔
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
کیا موجودہ حکومت نے موٹروے کوبھی نواز دور کا منصوبہ سمجھ کر اس سے بے اعتنائی برتنا شروع کر دی ہے۔ یہ غلط بات ہے، یہ عوام کا منصوبہ ہے، لوگ مفت اس پر سفر نہیں کرتے۔ پوری قیمت لیتی ہے حکومت، یہاں سفر کرنے والوں کے جان ومال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے جو اسے ہر صورت نبھانی چاہئے۔ سیاسی مخالفت کی حد ہوتی ہے، اسکی آگ میں عوام کے مفادات کو بھسم کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔
٭٭٭٭٭٭
پشاور میں بی آر ٹی کی ایک اور بس میں آگ لگ گئی
اب ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔ یہ پہلی بس نہیں جسے آگ لگی ہے۔ واقعہ تیسرا ہے، اس سے قبل بھی خدا جانے کن حاسدوں کی نظر لگی ہے کہ بی آر ٹی بسیں یکے بعد دیگر جل رہی ہیں ورنہ آج تک تو…؎
محبت میں سارا جہاں جل رہا ہے
زمین جل رہی آسماں جل رہا ہے
والی بات سننے کو ملی تھی مگر اب تو بسیں جلنے کے واقعات پے در پے ہونے لگے ہیں۔ اگر اسی رفتار سے بسیں جلنے لگیں تو پھر پشاور میں روٹ پر خاک اڑتی نظر آئیگی یا اداسی بال کھولے سوتی نظر آئیگی۔ یہ منصوبہ شروع دن سے ہی حاسدوں کی نظروں میں کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا، اس لئے اس میں اتنی تاخیر ہوئی اور اسکے اخراجات کئی گنا بڑھ گئے مگر آفرین ہے وزیراعظم پر کہ انہوں نے اسکے باوجود اس وقت کے وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیر دفاع کو کچھ کہنے کی بجائے اس منصوبہ پر ہمیشہ شاباش دی۔ اس ادھورے منصوبے کے افتتاح پر بھی انہوں نے اسکی تعریف ہی کی۔ اسکے بعد تو مخالفین کے دلوں میں آگ لگنی چاہئے تھی مگر حیرت ہے مخالفین کے دلوں کی بجائے بی آر ٹی کی بسیں جل رہی ہیں۔ یہ تو شکر ہے لوگ ان حادثوں میں محفوظ رہے ورنہ ریلوے کی طرح بی آر ٹی کی بھی بدنامی ہوتی کہ یہ مسافروں کی جانوں سے کھیل رہی ہے۔ حکومت خیبرپی کے ذرا جلدی خبر لے اور وجوہات ڈھونڈے۔