وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ماسکومیں ایس سی او وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے یک طرفہ ناقابل قبول اقدامات سے خطے کا امن تباہ ہوگا۔ متنازعہ خطوں کے سٹیٹس تبدیل کرنا کسی صورت قبول نہیں ۔ سی پیک منصوبہ پاکستان اور خطے سمیت دنیا بھر کے لئے معاشی ترقی کا باعث بنے گا۔دنیا بھر میںمعاشی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے اقوام متحدہ کا کردار مرکزی ہونا چاہیے ۔ہم افغان مہاجرین کی باعزت واپسی چاہتے ہیں۔ خطے میں مستقل امن کا خواب، پر امن اور مستحکم افغانستان ،مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیا میں مستقل قیام امن ، پرامن افغانستان اور مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے حل سے ہی مشروط ہے ۔خطے میں بھارت کے جار حانہ اقدام اور پاکستان کی امن کی خواہش دو متضاد چیزیں ہیں ۔پاکستان کی طرف سے امن کی خواہش اور کوشش اسی صورت نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے جب عالمی برادری بھارت کے جار حانہ عزائم کے سامنے بند باندھے اور اسے مجبور کرے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرے مگر امرواقعہ یہ ہے کہ عالمی برادری اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میںنا کام رہی ہے جس کی بڑی وجہ اقوام متحدہ کا بڑی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنا ہے۔ اس پس منظر میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کابیان حقائق کا آئینہ دار ہے کہ اگر عالمی برادری جنوبی ایشیا میں قیام امن کی خواہاں ہے تو اسے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنی ہی منظور کردہ قرار دادوں پر عمل در آمد کرانے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ تاخیر نہ صرف قیام امن کے عالمی ضابطوں کے منافی ہے بلکہ اس تاخیر کے باعث نہتے اور مظلوم کشمیریوں کی مشکلات بتدریج بڑھتی جا رہی ہیںمگر عالمی برادری کی جانب سے محض بھارت کی مذمت سے بڑھ کر کوئی ٹھوس اقدام نہ اٹھایا جانا افسوس ناک اور اقوام متحدہ کے منشور کے سراسر منافی ہے۔ عالمی برادری کو اس حوالے سے مثبت انداز میں غور کرنا ہوگا۔
بھارت کے جار حانہ اقدام کا تو یہ عالم ہے کہ مسئلہ کشمیر ابھی حل نہیں ہوا مگر مودی سرکار نے لداخ میںبھی چین کے ساتھ مڈ بھیڑ شروع کردی ہے، جس میںگو بھارت کوانتہائی ذلت کا سامنا کرنا پڑ ا ہے مگر مودی سرکار اس کے باوجود اعتدال کا راستہ اختیار کرتی نظر آتی ہے اور نہ ہی متنازعہ خطوں کی مسلمہ حیثیت کو تبدیل کرنے پر شرمندگی کا اظہار کرنے پر آمادہ ہے ۔ماسکو میںایس سی او وزرائے خارجہ کی کونسل سے خطاب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسی جانب بروقت اشارہ کیا ہے۔ حالات متقاضی ہیں کہ عالمی برادری پاکستان کی جانب سے باربار امن کی خواہش کے اظہار کو مثبت انداز میں دیکھے اور بھارت کے جار حانہ اقدامات کے سامنے بند باندھنے کے لئے ٹھوس اور بر وقت اقدامات اٹھائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عالمی برادری نہیں جانتی کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لئے شب وروز ایک کئے ہوئے ہے اور ہر وہ اقدام اٹھا رہا ہے جو حالات کے تناظر میں اٹھایا جا سکتا ہے ۔ کیا عالمی برادری پاک بھارت سرحد پر بلا ناغہ بھارتی جا رحیت کے واقعات سے آگاہ نہیں ؟ کیا یہ درست نہیں کہ بھارت بلوچستان میں مفاد پرست عناصر کا دست وبازو بنا ہوا ہے اور بلوچستان کا امن تباہ کرنے پر اربوں ڈالر پانی کی طرح بہا رہا ہے۔ پاکستان آرمی چیف کا گزشتہ بدھ کے روز کا بیان بھارت کے انہی جار حانہ عزائم کا رد عمل تھا۔
ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جب پاکستان بھارت کی عیاری اور مکاری کا نشانہ نہ بنتا ہو مگر خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے دو دہائیوں تک پاکستان سے مسلسل ڈومور کا مطالبہ کرنے والی طاقتیں بھارت کی جانب سے ایل او سی پر بلا ناغہ اشتعال انگیزی کاایک بار بھی نوٹس لینے پر آمادہ نہیں ہوئیں۔ عالمی برادری اس حوالے سے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے ۔عالمی برادری کی یہ روش اخلاقی اقدار اور بین الاقوامی ضابطوں سے مذاق کے مترادف ہے۔
پاکستان کا یہ موقف مبنی بر حقیقت ہے کہ متنازعہ خطوں کا سٹیٹس تبدیل کرنا قبول نہیں ۔ اگر بھارت یہ اقدام جارحانہ انداز میں اٹھا رہا ہے تو اس کا ہاتھ روکنا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے جو یہ عالمی ادارہ تا حال پوری نہیں کر رہا۔ اقوام متحدہ کایہی طرز عمل جنوبی ایشیا میں مسئلہ کشمیر اور مشرق وسطیٰ میں مسئلہ فلسطین کے حل نہ ہونے میں بڑی رکاوٹ ہے۔کاش عالم اسلام اس پر غور کرے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کے حل میں بے حسی کے اس مظاہرے کے باعث عالم اسلام کا گزشتہ صدی میں کتنا جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے اور مستقبل میں مزید کتنا نقصان ہو سکتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم اسلام میں اتحاد اور اتفاق کی راہیں کھول دے اور مسلم ممالک کے حکمرانوںکے دلوں میں اُمہ کومتحد کرنے کے لئے جذبے کو ابھار دے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38