عموماً کہا جاتا ہے کہ اگر بانی پاکستان محمد علی جناح پاکستان بننے کے ایک سال بعد ہی ہم سے رخصت نہ ہوتے اور کچھ عرصہ ان کی قیادت اور رہنمائی ہمیں میسر ہوتی تو پاکستان اس حالت میں نہ ہوتا جس حالت میں اب ہے۔ عام لوگ کہتے ہیں کہ اگر قائداعظم کی قیادت ہمیں ایک عرصے تک مل جاتی تو یہاں آئین و قانون کی حکمرانی ہوتی، ناانصافیاں ختم ہو جاتیں اور پاکستان کو قائداعظم کے ویژن کیمطابق ایک عظیم اسلامی فلاحی جمہوری ملک بننے کا موقع ملتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر قائد زندہ ہوتے تو کشمیر بھی پاکستان کا حصہ بن جاتا اور مشرقی پاکستان ہم سے الگ نہ ہوتا، ملک میں مارشل لاء نہ لگتے، جمہوریت تسلسل کیساتھ پاکستان میں قائم رہتی، معاشی انصاف ہوتا اور دولت کی منصفانہ تقسیم ہوتی، امیر امیر تر نہ ہوتا جاتا اور غریب غریب تر نہ ہوتا جاتا۔
بد قسمتی یہ ہوئی کہ بانی پاکستان ایک سال بعد 11 ستمبر 1948 کو ہم سے رخصت ہو گئے۔ انکے بعد ان کے ایک معتمد ساتھی نوابزادہ لیاقت علی خان پاکستان کے وزیر اعظم ملے، توقع تھی کہ ملک صحیح سمت میں چلے گا۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی قیادت میں پاکستان آگے بڑھتا ہوا محسوس ہو رہا تھا، لیکن انھیں بھی شہید کر دیا گیا اور پاکستان بننے کے چند سالوں بعد ہی ملک سیاسی اور آئینی اعتبار سے انتشار کا شکار ہو گیا۔ 50 کی قریباً پوری دہائی میں حکومتوں کے بننے، بگڑنے اور مغربی اور مشرقی پاکستان کے سیاستدانوں میں کھینچا تانی اور ایک آئین پر متحد نہ ہونے کی وجہ سے وطن عزیز بے سمتی کا شکار ہو گیا۔ یہ وہ صورتحال تھی جس میں پڑوسی ملک بھارت کے ایک لیڈر نے یہ پھبتی کسی کہ میں اتنی دھوتیاں نہیں تبدیل کرتا جتنی پاکستان میں حکومتیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یہ دور بڑا تکلیف دہ اور پاکستان کیلئے افراتفری کا تھا، سازشیں اور ڈرائنگ روم کا جوڑ توڑ عروج پر تھا۔ ان حالات میں اکتوبر 1958 میں فوج نے ٹیک اوور کیا اور کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالا۔ فوجی حکمرانی کے بعد بھی ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام نہ ہو سکا۔ حالات بگڑتے رہے، بدعنوانی بھی عام ہونے لگی، سیاسی عقربا پروری اور دوسری خرابیاں پھیلتی گئیں۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو کئی ملک جنھیں انکے لیڈروں نے آزادی اور خود مختاری دلائی تھی، انکے رخصت ہونے کے بعد بھی وہ ممالک اسی سمت میں چلتے رہے جو انکے بانیاں نے ان کیلئے متعین کی تھی۔ 18 ویں صدی میں امریکہ کو آزادی دلانے والے ابراہم لنکن اور جارج واشنگٹن دونوں دنیا سے چلے گئے لیکن امریکہ اس جمہوری سفر پر گامزن رہا جس کا تعین انکو آزادی دلانے والے ان لیڈروں نے کیا تھا۔ امریکہ ایک فیڈریشن بنا اور اس نے اپنے آئین اور قانون کیمطابق ترقی کا سفر جاری رکھا اور وہ دنیا کی سپر طاقت بن گیا۔ اب تک بھی امریکہ دنیا کی واحد سپر طاقت سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک اور عظیم دوست چین کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ مائو زے تنگ اور انکے ساتھیوں نے گذشتہ صدی میں 30 کی دہائی میں چین کی آزادی کیلئے جدوجہد شروع کی، لانگ مارچ کیا، چین کو استعماری نظام سے نجات دلائی اور اپنے ملک پرقابض غیر ملکیوں کو بھی نکال باہر کیا۔ 1950 میں عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھی اور چینی کیمونسٹ پارٹی نے اقتدار سنبھالا، اقتدار میں انھیں مشکلات پیش آئیں، پارٹی کے اندر کشمکش بھی جاری رہی۔ 50 اور 60 کی دہائی میں سفارتی انقلاب اور دوسرے اقدامات کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ مارے بھی گئے لیکن مائو کی قیادت میں چین نے اپنا سفر جاری رکھا۔ 1978 میں مائو زے تنگ کی وفات کے بعد چین میں خیال کیا جاتا تھا کہ اب شاید چین میں داخلی استحکام نہیں رہے گا اور مائو کے دور کی سیاسی کشمکش زور پکڑے گی لیکن چینی قیادت بہت زیرک نکلی اور انھوں نے ترقی اور استحکام کا سفر جاری رکھا۔ 1980 میں چین کے نئے لیڈر دنگ سیائو پنگ نے چین کی اقتصادی اور سیاسی سمت میں تھوڑی سی تبدیلی کی اور اوپن ڈور پالیسی اپنانے کا اعلان کیا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں Regimented Economy کے تصور کی جگہ مارکیٹ اکانومی کا تصور اپنایا گیا جسکے تحت معیشت پر حکومت کا کنٹرول آہستہ آہستہ ختم کر کے نجی شعبہ کو ترقی دی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چین گذشتہ تیس سال کے اندر اندر دنیا کی ایک سپر طاقت بن کر ابھرا ہے۔ وہ اب امریکہ کی ٹکر کی ایک طاقت ہے۔
دنیا میں کئی ایسے ممالک بھی ہیں جنھوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد آزادی حاصل کی اور آزادی دلانے والے لیڈروں کے دنیا سے چلے جانے کے بعد انکے دیئے ہوئے پروگراموں کے تحت ترقی کا سفر جاری رکھا اور یہ ممالک اب دنیا کی خوشحال معیشتوں میں شامل ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیاء میں ویت نام کو امریکہ نے 20 سالہ جنگ کے دوران نیست و نابود کر دیا لیکن ویت نام گذشتہ 30 سال کے اندر ایک عام معاشی طاقت بن گیا ہے۔ اسکی برآمدات پاکستان کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہیں جو مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ دنیا کی قومیں آزادی دلانے والے لیڈروں کے چلے جانے کے بعد انکے طے شدہ راستے سے بھٹکتی نہیں۔ اسکی وجہ سے وہ آگے کا سفر جاری رکھتی ہیں۔ پاکستان کی صورتحال بالکل مختلف ہے، سیاسی تجربات، جمہوری حکومتیں، فوجی حکمرانی، صدارتی نظام سب کچھ آزمایا جا چکا ہے لیکن ہمارے حالات بدل نہیں سکے۔ اس بات پر عمومی اتفاق رائے ہے کہ پاکستان مسلسل زوال کی طرف سفر کرتا آ رہا ہے۔ 50 سال تک پارلیمانی نظام کا آزمائے جانے کے بعد اب پھر ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ نظام کوئی بھی ہو اسکے چلانے والوں پر ہر بات کا انحصار ہے۔ اگر وہ خلوص کے ساتھ نظام کو چلا رہے ہوں اور طے شدہ اصولوں کے تحت ملک میں نظام زندگی چل رہا ہو، معاشی اور سیاسی انصاف ہو رہا ہو، لوگوں کو اعتماد ہو کہ انھیں ان کا حق ملے گا ، عدالتوں سے انھیں انصاف ملے گا، فیصلے میرٹ پر ہوں گے اور انکے ساتھ نا انصافی نہیں ہو گی تو ملک اور معاشرہ مستحکم رہتے ہیں اور ترقی بھی کرتے ہیں۔ لیکن اگر منظر یہ ہو کہ ذمہ دار لوگ لوٹ مار میں لگ جائیں اور اداروں کو اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کیلئے استعمال کرنے لگیں، ذاتی اور گروہی مفاد کو قومی مفاد پر مقدم رکھیں تو وہی کچھ ہو گا جو کہ آج وطن عزیز میں ہو رہا ہے۔ آج بھی اگر ہم بانی پاکستان کے دیئے گئے اس ویژن کیمطابق جس کے تحت وہ پاکستان کو ایک جمہوری اسلامی اور فلاحی ملک بنانا چاہتے تھے، چلانا شروع کریں تو ہم ان مصیبتوں اور بحرانوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں جنھوں نے ہمیں جکڑا ہوا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024