صحت کی سہولت بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک تصور کی جاتی ہے، اور کسی بھی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو علاج معالجے کی’’ سستی ‘‘اور معیاری سہولتیں فراہم کرے۔ مگر پاکستان میں ’’شعبہ صحت‘‘ کا شمار ایسے شعبوں میں ہوتا ہے جن کا کوئی’’ پرسان حال‘‘ نہیں۔میں ایک عرصے سے ہسپتالوں کے معاملات پر لکھ رہی ہوں ،معاملات کی بہتری کے لیے ’’ہزارہا‘‘ اور ’’بار ہا ‘‘تجاویز دی ہیں لیکن انھیں نظر انداز کر دیا گیا ۔درحقیقت ماضی میں شعبہ صحت کے ’’حصے بخرے‘‘ کر کے اپنے چہیتوںکو نوازا گیا ۔جس کے باعث اس محکمے پر اتنا’’ بوجھ ‘‘پڑا کہ وہ کھڑا ہونے کے قابل بھی نہ رہا ۔ میرے نزدیک پنجاب حکومت کا یہ’’ مستحسن ‘‘فیصلہ ہے ،جس سے محکمے کی کارکردگی بہتر ہو گی ۔ نجکاری آرڈیننس کے بعد تمام ٹیچنگ ہسپتالوں کا نظام بورڈ آف گورنرز کے سپرد ہو گا۔اور وہ سبھی پرائیویٹ افراد ہوں گے۔ یقینی طور پراس فیصلے سے ان ہسپتالوں کا ماحول بھی ’’مریض دوست‘‘ ہونے کی امید ہے ۔کیونکہ سرکاری ہسپتالوں میںا ٓئے روز ہڑتالوں سے مریض’’ تڑپ‘‘ رہے ہوتے ہیں ۔دوسری جانب آج تک کسی بھی پرائیویٹ ہسپتال میں ہڑتال نہیں ہوئی ۔گزٹ نوٹیفکیشن کے مطابق ڈاکٹرز، نرسز، سٹاف کا سرکاری ملازمت کا درجہ ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد کوئی بھی ینگ ڈاکٹر ہڑتال کے بارے سوچے گا بھی نہیں ۔ مسلم لیگ (ن) نے اس آرڈیننس کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔پہلے بھی اسی جماعت نے شعبہ صحت کا’’ بیڑہ غرق‘‘ کیا تھا، اب ایک بار پھر وہ اسی’’ ڈگر‘‘ پر چل نکلی ہے ۔موجودہ حکومت کے حالیہ فیصلے سے ینگ ڈاکٹر ز کے زور کو توڑنے میں مدد ملنے کے کئی فیصد امکانات ہیں کیونکہ جب تک یہ’’ مافیا‘‘ موجود رہے گا ،اس وقت تک حالات کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا ۔ینگ ڈاکٹرز صرف اپنی’’ من مانی‘‘ چاہتے ہیں ۔اگر حکومت ان کی سبھی باتیں مان لے تو ہسپتالوں کا ’’حلیہ ہی بگڑ‘‘ جائے ۔ تمام سرکاری ہسپتالوں میں رات کو کام ’’ٹھپ ‘‘ہوتا ہے لیکن ینگ ڈاکٹر موبائل میں مصروف ہوتے ہیں ،سینئر ڈاکٹر تو رات کی ڈیوٹی کرنا اپنی’’ توہین ‘‘ سمجھتے ہیں حالانکہ انھیں اس مقام تک پہنچانے والے یہ سرکاری ہسپتا ل ہی ہوتے ہیں ۔نام نہاد پروفیسر نے سرکاری ہسپتالوں سے بھاری تنخواہیں اور مراعات لینے کے باوجود ایک ایک پرائیویٹ کلینک بنا رکھا ہوتاہے، سرکاری ہسپتال میں مریض کو کہہ دیا جاتا ہے کہ تمہارے مرض پر خصوصی توجہ اور’’ تشخیص ‘‘کی ضرورت ہے جو کہ شام کو پرائیویٹ کلینک پرحاصل کی جاسکتی ہے ، جہاں مجبور مریض سے بھاری فیس لینے کیلئے عملہ تیار ہوتا ہے۔جو مریضوں کے ساتھ سرا سر زیادتی ہے ۔ جس طرح کسی خیراتی ہسپتال میں ڈاکٹرز کی من مانی نہیں چلتی ایسے ہی سرکاری ہسپتالوں میں بھی صرف حکومت’’ سکہ‘‘ چلنا چاہیے ۔اب ایک خوش کن خبر آئی ہے کہ ٹیچنگ ہسپتالوں کے بعد پنجاب بھر کے شعبہ صحت کی نجکاری کا فیصلہ ، ریجنل ہیلتھ اتھارٹیز قائم کرکے ڈسٹرکٹ، تحصیل ہسپتال، دیہی اور بنیادی مراکز صحت میں بھی اچھانظام رائج کیا جائے گا، ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکس کا سرکاری ملازمت کا درجہ بھی ختم ہوجائے گا، صرف کنٹریکٹ پر بھرتیاں ہونگی۔ نجکاری کے منصوبے کے تحت ڈسٹرکٹ اور تحصیل ہسپتالوں سمیت مراکز صحت کو دیئے گئے بجٹ کو بھی مرحلہ وار کم کیا جائے گا اور ان ہیلتھ فسیلیٹیز کو اپنی آمدنی خود پیدا کرنا ہوگی۔ابھی تک پاکستان میں کسی بھی جگہ پر ادویات ہیں اور نہ مطلوبہ تعداد میں ڈاکٹرز، جو ہیں وہ بھی’’ کام چوری ‘‘سے کام لے رہے ہیں۔ معمولی علاج اور ٹیسٹ کیلئے تاریخوں پر تاریخیں دی جاتی ہیں، سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز مریضوں کو پرائیویٹ لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کا مشورہ دیتے ہیں ، نتیجتاً انسانیت ہسپتالوں کی’’ راہ داریوں‘‘ میں سسکتی نظر آتی ہے۔ ہمارے وفاقی اور صوبائی وزیر صحت کی نظروںسے’’ فائلیں ‘‘ہی نہیں گزر تیں ۔بس وہ بھی پرانے پاکستان کے سیاستدانوں کی طرح’’ آنکھیں بند ‘‘کر کے دستخط کر دیتے ہیں۔ گیلپ سروے کے مطابق پاکستان دنیا کے 188 ممالک کی فہرست میں صحت کے حوالے سے 149 ویں نمبر پر ہے اور یہاں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں شہری علاج معالجے کی معیاری سہولیات سے محروم ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ حزب اقتدار کے علاوہ حزب اختلاف کو بھی پروا نہیں کہ وہ شہریوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات کا ’’تدارک‘‘ کرنے کیلئے عملی طور پر موثر کردار ادا کرے۔ جبکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 38کے الفاظ کے مطابق ’’ریاست کا بنیادی فرض ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کو بلاامتیاز مذہب، جنس ،ذات ، عقیدہ اور نسل زندگی کی بنیادی ضرورتوں بشمول صحت اور علاج معالجہ کی سہولتوں کو یقینی بنائے‘‘۔موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد یوں تو ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن ادویات کی قیمتوں میں جس’’ بلند شرح‘‘ سے اضافہ کیا گیا‘ اس نے عام آدمی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔آئین پاکستان ہر شہری کو اس کی جان و مال‘ صحت و تعلیم اور چادر اور چاردیواری کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے لیکن یہی وہ حقوق ہیں جو شہریوں کو آئین کے مطابق نہیں مل رہے۔ حکومت عوام سے ٹیکس وصول کر رہی ہے‘ وزراء ‘ ارکان اسمبلی‘ سینیٹرز‘ وزیراعظم‘ گورنر صاحبان اور سرکاری افسران عوام کے انھی ٹیکسوں سے تنخواہیں اور مراعات حاصل کرتے ہیں‘ حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ کم از کم صحت کی سہولتیں عوام کو مفت مہیا کرے۔ سرکاری اسپتالوں کا معیار بہتر بنایا جائے‘ ہر سرکاری اسپتال اور مرکز صحت میں بھی تمام ادویات مفت فراہم کی جائیں اسی طرح ٹیسٹ بھی مفت کیے جائیں تو عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔بلاشبہ ہمارے ملک میں ہسپتال ، ڈاکٹرز اور صحت کے لئے کم بجٹ کا سامنا ہے لیکن ان سب سے زیادہ ہمیں شعبہ صحت میں ’’شفافیت ‘‘کی ضرورت ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38