یواین سیکرٹری جنرل کا مذاکرات کے دروازے کھلے رکھنے کا مشورہ‘ شاہ محمود قریشی کی طرف سے ثالثی واحد آپشن قرار
اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میںکرفیو کا سلسلہ پانچ ہفتوں تک پھیل چکا ہے اور بھارت کی جانب سے لاک ڈائون اور جبر و استبداد کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ انہوں نے یہ بات اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتوینو گوئٹرس سے ملاقات میں کہی ہے۔ اس ملاقات میں پاکستانی مندوب نے سیکرٹری جنرل کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں پانچ اگست کے بعد پیدا ہونیوالی سنگین صورتحال اور انسانی المیہ کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا اور کہا کہ بھارت کے یکطرفہ ، غیرقانونی اور غیر آئینی اقدامات سے نہ صرف علاقائی بلکہ پوری دنیا کے امن و سلامتی کیلئے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔ پاکستانی مندوب نے کہا وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری قانون، انصاف اور انسانی حقوق کے تحفظ کے معاملہ پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرے۔ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کرنے کیلئے بھارت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ غیرقانونی، غیرآئینی اور اقوام متحدہ کے چارٹر و سلامتی کونسل کی قراردادوں کیخلاف ہیں۔ بھارتی اقدامات سے کئی بحران پیدا ہو چکے ہیں۔ بھارتی اقدامات کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہو چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت انسانی المیہ کی صورتحال ہے جس کی واضح شکل بھارت کی جانب سے کرفیو پر پابندی اٹھانے کے بعد سامنے آ ئیگی۔ انہوں نے اس صورتحال کے تناظر میں عالمی برادری کے فعال اور مؤثر کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس موقع پراقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے جموں و کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا راستہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے۔
5اگست کے بھارت کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کیخلاف کشمیری سخت پابندیوں کی زد کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور بنیادی ضروریات سے یکسر محروم ہیں۔ آج کرفیو کے نفاذ کو چالیس روز ہوگئے‘ بچے دودھ کو بلک رہے ہیں‘ مریض ادویات کی کمی کے باعث موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ مظلوم کشمیریوں کی آواز دنیا کے کونے کونے اور متعلقہ فورمز تک پہنچانے میں پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی ہے جس پر عالمی ضمیر میں کچھ ہلچل تو پیدا ہوئی ہے جو اقدامات اٹھائے جانے اس المیہ کا تقاضا تھا‘ وہ نہیں اٹھائے گئے۔ بات بیانات کی حد تک ہی محدود رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر بھارت کے جارحانہ‘ غیرانسانی‘ غیرسفارتی اور غیرقانونی اقدام پر تشویش کا اظہار کیا اور مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا۔ یہ بیان سلامتی کونسل کے اجلاس کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کیا گیا جس میں اقوام متحدہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ کشمیر ایشو پر اقوام متحدہ کی قراردادیں قابل عمل اور اس مسئلہ کا یہ قراردادیں ہی حل ہیں۔ ان قراردادوں پر عمل کس نے کرانا اور کب کرانا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے سامنے ایک بار پھر کشمیریوں پر بھارتی بربریت اور سفاکیت واضح کی۔ یہ ساری صورتحال بنیادی طور پر تنازعہ کشمیر کی وجہ سے ہی پیدا ہوئی ہے۔ بھارت وادی پر اپنا قبضہ مضبوط سے مضبوط تر بنانا چاہتا ہے۔ انتونیو گوئٹرس نے پاکستان کا موقف ایک بار پھر غور سے سنا اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فریقین کو مذاکرات کا مشورہ دیا۔ مذاکرات بھی کس سے اور آخر کب تک ؟؟ بھارت عالمی دبائو کے تحت مذاکرات کی میز پر تو آتا ہے اور موقع ملتے ہی مذاکرات کو سبوتاژ کردیتا ہے۔ وہ کسی بھی ملک کی طرف سے ثالثی کی پیشکش کو یہ کہہ کر مسترد کرتا رہاہے کہ یہ دوطرفہ مسئلہ ہے جو پاکستان اور بھارت مل کر حل کرلیں گے۔ یہ بھارت کی سب سے بڑی منافقت ہے۔ اگر یہ مسئلہ دو طرفہ طور پر حل ہونا ہوتا تو کب کا ہو گیا ہوتا۔ بھارت کی بدنیتی کے باعث ہی یہ مسئلہ لاینحل چلا آرہا ہے۔ بجائے اسکے کہ وہ اس تنازع کو طے کرنے کی طرف آتا‘ اس نے اسے مزید بڑھا دیا ہے۔ کشمیری آزادی مانگتے تھے‘ ان سے اپنے وطن کی پہچان ہی چھین لی گئی۔ اس پر کشمیری خاموش بیٹھنے پر تیار نہیں۔ وہ پابندیاں توڑ کر دنیا پر اپنی مظلومیت واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارتی سفاک فورسز انہیں احتجاج کا حق دینے پر بھی تیار نہیں۔ کشمیریوں کی مذہبی آزادی پر بھی قذغن لگائی گئی ہے۔ ان کو عید اور نماز جمعہ کی ادائیگی نہیں کرنے دی گئی۔ محرم کے جلوسوں پر متواتر لاٹھی چارج اور فائرنگ ہوتی رہی۔ عاشور کے روز بھارتی فوج کی فائرنگ سے نوجوان شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ شہداء کو دفنانے کی اجازت نہیں جبکہ زخمیوں کے ہسپتالوں تک پہنچنے کے راستے بند ہیں۔ ہسپتالوں میں جان بچانے والی ادویات ختم ہوچکی ہیں۔ بھارت کشمیریوں کو زندہ رہنے کا حق دینے اور انکی آواز سننے پر تیار نہیں‘ وہ عالمی برادری کے مطالبات کو بھی اہمیت نہیں دیتا۔
گزشتہ روز جنیوا میں اقوامِ متحدہ کے تحت عالمی ادارہ برائے پناہ گزین کے تحت (ہیومن رائٹس کونسل)کے غیرمعمولی اجلاس میں 50 ممالک نے مقبوضہ کشمیر پر مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے بھارت کے سامنے 5 مطالبات رکھے ہیں۔مشترکہ اعلامیے میں پہلا مطالبہ ہے کیا گیا بھارت کشمیریوں سے جینے کا حق نہ چھینے اور انہیں جینے دیا جائے۔ دوسرے مطالبے میں کہا گیا کشمیر میں مسلسل 37 روز سے جاری کرفیو فوری طور پر ختم کیا جائے۔تیسرے مطالبے میں بھارت کو باور کرایا گیا کہ بین الاقوامی میڈیا کشمیر میں مواصلات کے کریک ڈائون کی تصدیق کرچکا ہے اس لئے کشمیر میں مواصلات کو یقینی بنایا جائے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔چوتھے مطالبے میں کئی ذیلی مطالبات رکھے گئے ہیں جن کے تحت مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کا تحفظ، آزادی اور گرفتار افراد کو رہا کرنے کے ساتھ ساتھ پیلٹ گن سمیت طاقت کے بے جا استعمال سے گریز کا تقاضا کیا گیا ہے۔اسی کے ساتھ مطالبہ کیا گیا مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دورے کی اجازت دی جائے۔ پانچواں اور اہم مطالبہ یہ کہتا ہے کہ جموں و کشمیر کے حل کیلئے پرامن طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ ہیومن رائٹس کونسل کا ہر مطالبہ جائز اور قابل ستائش ہے۔ بیعنہ اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی جائز اور قابل عمل ہیں۔ او آئی سی کی جانب سے بھی متعدد بار یہی مطالبات دہرائے گئے ہیں۔ مگر بھارت ایسے مطالبات اور قراردادوں کو درخوراعتناء نہیں سمجھتا۔ یہ ان بڑے اور معتبر اداروں کی توہین ہے جس کا ادراک ان اداروں کو خود بھی ہونا چاہیے۔
کشمیری اپنی ریاست اور حق خودارادیت سے کسی طور دستبردار ہونے کو تیار نہیں‘ وہ اس حق کی خاطر لڑ رہے ہیں‘ کٹ رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ‘ او آئی سی‘ ہیومن رائٹس کونسل جیسے اداروں اور یورپی یونین کو اب بیان بازی سے آگے بڑھ کر کشمیریوں کو ان کا حق دلانے کیلئے عملی اقدامات کرنا ہونگے۔ورنہ بھارت اپنے جنگی جنون میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو جس نہج پر لے آیا ہے‘ وہ نہ صرف خطے بلکہ کرۂ ارض کیلئے بھی انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔
جنیوا میں ہیومن رائٹس کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تیسرے فریق کی ثالثی واحد آپشن ہے۔ ہم نے ہمیشہ مصالحت کی پیشکش کو قبول کیا‘ بھارت ہٹ دھرمی سے کام لیتا رہا۔ وزیر خارجہ کے ثالثی کو واحد آپشن قرار دینے کے موقف سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ ثالث لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد‘ مقبوضہ اور آزاد کشمیر کو خودمختار ریاست قرار دے سکتا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان اور کشمیریوں کیلئے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا مسئلہ کشمیر کا آخری اور واحد حل اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی منظور شدہ قراردادیں ہی ہیں‘ پاکستان کی طرف سے انہی پر عمل درآمد پر زور دینا چاہیے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024