ہماری سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر سیاستدان خصوصاً پارٹی ہیڈز اپنے آپ کو عوام کے سامنے عظیم لیڈرزتصور کرتے ہیں۔ کوئی قائد اعظم ثانی بنا ہوا ہے۔ کوئی عظیم بھٹو ہے۔ کوئی ریاست مدینہ کا والی ہے کوئی نظامِ مصطفٰے کا لیڈر بنا پھرتا ہے۔ لہٰذا سب نے اپنی اپنی دوکان سجا رکھی ہے اور عوام کو بیوقوف بناتے ہیں۔بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ خوش کن اعلانات کا سہارا لیتے ہیں ۔غرضیکہ ووٹ بٹورنے کا ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد نہ عوام یاد رہتے ہیں نہ دعوے اور نہ وعدے۔بے شک انہیں لاکھ دفعہ یاد دلائیں وہ اس طرف آتے ہی نہیں۔ باتوں اور وعدوں کے وہ قلعے تعمیر کرتے ہیں جو عوام کو ترقی کی معراج تک پہنچا دیں۔ اگر باتوں اور وعدوں سے ترقی ہوتی تو یقیناً آج پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سب سے آگے ہوتا۔ کاش ہمارے لیڈرز عوام سے سچ بولتے۔لیڈروں کے جھوٹے وعدوں نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
اچھا لیڈر وہ ہوتا ہے جو عوام سے جھوٹ نہ بولے اور مشکل وقت میں عوام کے ساتھ کھڑا ہو۔پاکستان کے جتنے بھی قابل ذکر لیڈرز ہیں سب آزمائے جا چکے ہیں۔سب نے مایوس ہی کیا۔ کسی نے بھی عوام کے لئے وہ کچھ نہ کیا جسکا وعدہ کر کے ووٹ حاصل کئے۔ کچھ نے تو لوٹ کر ملک ہی کنگال کردیا۔ لیڈروں کی نئی پود میں اسوقت سب سے آگے جناب بلاول بھٹو زرداری صاحب ہیں۔ ما شا ء اللہ نوجوان ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ مہذب اور سمجھدار ہیں ۔ خاندانی پس منظر بھی عظیم ہے۔ بہت سے عوام کی نظر میں بلاول صاحب مستقبل کے عظیم لیڈر ہیں۔ حکمرانی انکا حق ہے۔ سارے پاکستان کا دورہ کر کے اقتدار کا راستہ صاف کررہے ہیں لیکن محترم جہاں بھی تقریر کرتے ہیں دو نقاط پر زور دیتے ہیں۔ ۔سب سے پہلے تو موجودہ حکومت کو خوب بدنام کرتے ہیں ۔انکی نظر میں موجودہ حکومت نااہل، کرپٹ آداب سیاست اور فارن پالیسی سے ناواقف اور حکمرانی کے قابل ہی نہیں۔ اس لئے ملک میں بے تحاشہ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت بہت بڑھ گئی ہیں۔
دوسرا وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی بہت تعریف کرتے ہیں جیسے اس دور میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ محترم دعوے کرتے ہیں کہ ہم نے 68لاکھ افراد کو ملازمتیں دیں۔ محترم یہ نہیں جانتے کے انکے والد صاحب کے دور حکومت میںبھی عوام اتنے ہی تنگ تھے جتنے آج کل ہیں۔ آج کل تو پھر بھی امید ہے کہ شاید حالات بہتر ہو جائیں۔ اس دور میں تو وہ امید بھی نہیں تھی۔ 18-18گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی تھی اور محترم پرویز اشرف صاحب ہر ماہ لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کی خوشخبری سناتے تھے لیکن آخر تک کوئی وعدہ سچ نہ ہو سکا۔کرپشن ہر لیول پر بہت بڑھ گئی تھی۔ محترم زرداری صاحب پر بھی بہت سے الزامات لگے تھے۔ شاید یہی وہ دور تھا جب وہ مسٹر ٹین پرسنٹ سے ترقی کر کے ہنڈرڈ پرسنٹ بنے تھے۔ جناب بلاول صاحب وعدے کرنا، دعوے کرنا ،کسی کے خلاف تقریریں کرنا ،کسی کا مذاق اڑانا سب آسان باتیںہیں۔ مگر عملی طور پر کوئی کارنامہ کر دکھانا، مشکل وقت میں عوام کی مدد کو آنا اور بات ہے۔
اچھا لیڈر وہ ہوتا ہے جو مشکل وقت میں عوام کے ساتھ کھڑا ہو اور عوام کو مشکلات سے نکالے ۔جو لیڈر عوام کو مشکلات سے نہ نکال سکے وہ لیڈر کہلانے کا حقدار ہی نہیں۔ بی بی کا بیٹا اور بھٹو کا نواسہ ہونے کی
وجہ سے عوام کی بلاول کے ساتھ بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ عوام کا خیال ہے کہ یہ ایک متحرک لیڈر ثابت ہوگا مگر افسوس کہ انکی شخصیت میں یہ خوبی نظر نہیں آرہی۔ پچھلے چند ماہ سے کراچی کے عوام بہت تکلیف میں ہیں ۔بارش نے کراچی کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ سڑکیں دریا بن چکی ہیں ۔سڑکوں پر کشتیاں چلتی نظر آتی ہیں۔ گٹر ابل کر بارش کے پانی کا حصہ بن گئے ہیں اور گندا پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہو گیا ہے۔
کراچی میں ہر طرف کچرا ہی کچرا نظر آتا ہے۔ بدبو سے لوگوں کی زندگی جہنم بن چکی ہے ۔بجلی کئی کئی گھنٹے غائب رہتی ہے۔ امن و امان کی حالت بھی بہت مخدوش ہے۔ پینے کا پانی تک میسر نہیں لوگ بدبو دار پانی پینے پر مجبور ہیں۔ لوگوں کو ایک ایک گلاس پانی خرید کر پینا پڑتا ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جسے عروس البلاد کہتے ہیں۔ تقریباً02کروڑ کی آبادی ہے۔ معاشی طور پر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ 70فیصد معیشت کا انحصار کراچی پر ہے۔ یہ سندھ کا دارالحکومت بھی ہے ۔اربوں روپے کا سالانہ فنڈ بھی ملتا ہے مگر کراچی ایسا شہر بن چکا ہے جو رہنے کے قابل ہی نہیں رہا۔جب کراچی اتنی مشکلات کا شکار ہے ایسے وقت پر تو بلاول صاحب کو کھل کر سامنے آنا چاہیے تھا۔کراچی اسکا اپناشہر ہے۔ 12سالوں سے حکومت بھی پی پی پی کی ہی ہے۔ فنڈز کی بھی کمی نہیں تو بلاول صاحب کہاں ہیں اور عوام کی مدد کے لئے سامنے کیوں نہیں آرہے ؟سارے پاکستان کا دورہ کر سکتے ہیں ۔دیر اور ڈیرہ اسماعیل خان جا کر تقریریں کر سکتے ہیں ۔حکومت پر نا اہلی کے الزامات لگا سکتے ہیں۔ عوام کے دکھ درد پر جذباتی تقریریں کر سکتے ہیں لیکن اپنے شہر میں جو اسوقت مصیبت میـں گرفتار ہے کے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔ افسوس کہ آپ کے پاس عوام کی ہمدردی کے لئے نہ وقت ہے نہ الفاظ اور نہ ہمت۔ اگر آپ صرف کراچی شہر کو ٹھیک نہیں کر سکتے تو کل کو آپ پورا ملک کیسے چلائیں گے؟
دوسرا ہماری موجودہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے بہت سی مشکلات کا شکار ہے۔اسے اپنی تمامتر کوششوں کے باوجود کسی بھی طرف سے کامیابی نصیب نہیں ہو رہی۔ معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔ پوری قوم سر تک قرض میں ڈوبی ہے ۔مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے اور اب ان سب پریشانیوں کے علاوہ بھارتی وزیر اعظم مودی کا کارنامہ ہے جس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کر کے بھارت میں ضم کر لیا ہے۔مودی کی اس کاروائی سے اپوزیشن کو عمران خان کے خلاف الزام تراشی کا موقع مل گیا ہے۔ اپوزیشن نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے کہ عمران خان نے کشمیر کا سودا کردیا ہے۔ کشمیر مودی کے ہاتھ بیچ دیا ہے جس کی اب ڈی جی آئی ایس پی آر نے آکر تردید کی ہے۔
عمران خان 24سالوں سے اقتدار تک پہنچنے کے لئے ہاتھ پائوں مارتا رہا ہے۔ اس کوشش میں طرح طرح کے بیانات دئیے جن پر عمل کرنا ممکن ہی نہ تھا ۔مثلاً آئی ایم ایف سے قرض لینے سے تو بہتر ہے میں خود کشی کر لوں۔ ملک سے کرپشن ختم کردونگا۔ معاف کرایا گیا قرضہ اشرافیہ سے واپس لوں گا۔ ملک سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لائیں گے ۔مگر اقتدار میں آکر پتہ چلا کہ یہ سب باتیںمحض سیاسی بیانات ہیں۔ شروع شروع میں سابق چیف جسٹس اور عمران خان نے معاف کرائے گئے قرض کی رقم واپس لانے کے بیانات دئیے ۔اخباروں میںقرض معاف کرانے والے منظور نظر افراد کی لسٹیں بھی شائع ہوئیں اور پھر اچانک خاموشی چھا گئی۔ رات گئی بات گئی۔نیا ڈیم تعمیر کرنے پر بھی بڑے بڑے بیانات آئے ۔غالباً چودہ ارب روپیہ بھی اکٹھا ہوا ۔بڑے ہائی پروفائل انداز میں ڈیم کی تعمیر کا افتتاح ہوا اور پھر خاموشی۔کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ بھی پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ لہٰذا عوام اب یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ الیکشن کے دوران کئے گئے وعدے محض عوام کو دھوکہ دینے کے لئے سیاسی بیانات سے زیادہ کچھ نہ تھے لیکن عمران خان کا اصل امتحان اب مسئلہ کشمیر ہے جو’’ ابھی نہیں یا کبھی نہیں‘‘ کی سٹیج پر آگیا ہے ۔عوام کا خیال تھا کہ اس معاملہ پر خان صاحب ڈٹ کر بھارت کا مقابلہ کریں گے۔اپنے دوست اور خصوصاً مسلمان ممالک کے دورے کر کے پاکستان کے لئے ہمدردی اور تعاون حاصل کریں گے۔ قوم کے لئے با عزت اور سنجیدہ روڈ میپ فراہم کریں گے اور سب سے اہم کہ فرنٹ سے قوم کی راہنمائی کریں گے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ صرف چین کا دورہ کیا گیا اور وہ بھی وزیر خارجہ نے کیا۔ چین کے علاوہ کسی ملک نے بھی کھل کر ہمارا ساتھ نہ دیا جس کے لئے کوشش ہی نہ کی گئی۔ ہماری تاریخ کے اس خطرناک اور تکلیف دہ مرحلہ پر خان صاحب کی قیادت مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔خان صاحب محض گفتار کے غازی ثابت ہورہے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024