جناب۔ ایسی ٹرمپئی سیاست کے تو صدقے واری جانے کو جی چاہتا ہے کہ ایک جانب وہ علاقائی امن و سلامتی کی خاطر مسئلہ کشمیر حل کرانے کو بے تاب نظر آتے ہیں اور اس مسئلہ کے حل کے لیے انہوں نے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی مسلسل چوتھی بار پیش کش کر دی ہے اور دوسری جانب حتمی معاہدہ کو پہنچے ہوئے افغان امن عمل کی بساط محض ایک امریکی باشندے کی ہلاکت کا بہانہ تراش کر لپیٹ دی۔ جناب شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی، پھر کیوں نہ کشمیر پر ثالثی کی بار بار کی پیشکش کا بھی جائزہ لے لیا جائے کہ ’’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں‘‘۔ جناب اصل مقصد تو علاقائی امن و استحکام کا ہے اور یہ امن و استحکام کس کے ہاتھوں دائو پر لگا ہوا ہے۔ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چُھپی تو نہیں رہی کہ آج پوری دنیا میں ہا ہا کار مچی ہے۔ زمانے بھر کی جانب سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں، آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ قراردادیں پاس کی جا رہی ہیں۔ مراسلات بھجوائے جا رہے ہیں۔ یادداشتیں پیش کی جا رہی ہیں مگر ٹرمپ کے یار مودی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ اس نے پاکستان اور مسلم دشمنی کی انتہا کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو 40 روزے بدترین کرفیو میں جکڑ رکھا ہے اور انسانی حقوق کی یامالیاں اس وحشیانہ انداز میں کی جا رہی ہیں کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی کمشنر میڈیم میچل بھی چلا اٹھی ہیں اور جنیوا میں منعقدہ انسانی حقوق کونسل کے 42 ویں اجلاس میں اس کونسل کے ارکان دنیا کے پچاس سے زیادہ ممالک کے سفیروں نے ایک مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے یک زبان ہو کر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے مظالم کی دہائی دی ہے۔ ہر عالمی ادارے اور ہر عالمی قیادت کی جانب سے کشمیر میں لاک ڈائون اور کرفیو کی پابندیاں ختم کرنے کا تقاضہ کیا جا رہا ہے مگر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے در پے جنونی مودی ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔
ٹرمپ نے اسی مودی کو سب سے پہلے ثالثی کی پیشکش کی تھی اور یہ پیشکش بھی مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لیے ان کی اپنی درخواست پر کی گئی جس سے ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خاںکو ان سے ملاقات کے موقع پر آگاہ کیا اور ثالثی کی پیشکش کا اعادہ کیا تو مودی کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی تصویر بن کر کشمیر کے بخیئے ادھیڑنے پر اُتر آیا۔ مودی سرکار نے گزشتہ ماہ پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے بارے میں بھارتی آئین کی دفعہ 370 ، اور 35 اے کو آئین سے نکال کر درحقیقت ہمارے اس موقف کی تصدیق کی تھی کہ بھارت نے دفعہ 370 کے تحت کشمیر کو اپنی ریاست کا درجہ د ے کر اسے مستقل طور پر ہڑپ کرنے کی سازش کی ہے۔ اب مودی سرکار نے دہری چال یہ چلی کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت تو ختم کر دی مگر اس سے ملحقہ علاقے لداخ کو ریاست جموں و کشمیر سے نکال کر مکمل طور پر بھارت کا حصہ بنا دیا اور یہ کام اس نے چین کے علاقے اروناچل پردیش میں دوبارہ 60ء کی دہائی جیسی نقب لگانے کے لیے کیا۔ اب جو بھارت پر پرزے نکال کر چین کی سرحدوں کے اندر بھی جگالی کا سوچ رہا ہو اور اس نے پاکستان کے ساتھ بھی کنٹرول لائین پر مستقل طور پر متھا لگایا ہوا ہو جبکہ مقبوضہ کشمیر میں اپنی 9 لاکھ فوج کو جھونک کر اس نے اس جنت نظیر وادی کو جہنم زاد میں تبدیل کر دیا ہو، سب سے پہلے تو اس کی خبر لینے کی ضرورت ہے کیونکہ علاقائی اور عالمی امن تاراج کرنے کی راہ پر تووہی گامزن ہے جس کی ہندو انتہا پسند جنونی مودی سرکار نے دنیا کا کوئی دبائو قبول نہ کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔
اگر مودی نے ٹرمپ کی جانب سے وزیر اعظم پاکستان کو ثالثی کی پیش کش کے محض اعادہ پر اس پورے خطہ میں انسانی تباہی کے اہتمام والے اقدامات اٹھا لیے ہیں تو اب مودی کے لیے تیسری اور چوتھی بار لجاجت بھرے لہجے میں ثالثی کی پیشکش کے اعادہ کی ضرورت ہے یا اس کے پیدا کردہ حالات اسے دوٹوک انداز میں شٹ اپ کال دینے کے متقاضی ہیں؟ پھر مسئلہ کشمیر تو سیدھے سبھائو سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا ہے جس کے لیے اب خود سلامتی کونسل کی جانب سے تقاضہ بھی کیا جا چکا ہے اس لیے ٹرمپئی سیاست تو بھارت سے یو این قراردادوں پر عملدرآمد کرانے کی ہونی چاہئے چہ جائیکہ اسے ثالثی کا دانہ ڈال کر سلامتی کونسل کی قراردادوں سے دوبارہ انحراف کا راستہ دکھایا جائے۔ تو جناب یہی سیاست جناب شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی والی ہے جس میں مودی یار کی سہولت کو بہرصورت پیش نظر رکھا جا رہا ہے۔ یہ سیاست علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو یقینی بننے والی تو ہرگز نہیں۔ اپنے مفادات نکالنے والی ضرور ہے اور امریکی قیادت تو بس اپنے مفادات کی ہی اسیر ہوتی ہے جس کے تحت وہ کسی کی دوست بنتی ہے اور کسی سے دشمنی مول لیتی ہے اور پھر طوطا چشمی میں بھی ذرہ بھر دیر نہیں لگاتی۔
کیا ایسا ہی افغان عمل کے لیے گزشتہ دس ماہ سے سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور دوحہ میں جاری امریکہ طالبان مذاکرات کا حشر نہیں کیا گیا، یہ تو سراسر امریکی مفادات کا معاملہ ہی آڑے آیا ہے۔ امریکہ کو احساس ہوا کہ افغان دھرتی کو تورا بورا بنانے اور لاکھوں افغانیوں کو اپنے مفادات کی جنگ کی بھینٹ چڑھانے کے باوجود امریکی فوجیوں کی افغانستان سے بحفاظت اور زندہ واپسی ممکن نہیں رہی تو اس نے پاکستان کے پائوں پکڑ لئے۔ اس پر ریشہ خطمی ہوتے ہوئے ڈومور کے تقاضوں میں بھی نرمی پیدا کر لی اور اس کی معطل کی گئی سول اور فوجی گرانٹ بھی بحال کر دی۔ وزیر اعظم پاکستان کو وائٹ ہائوس مدعو کر کے پورا پروٹوکول دیا اور اس طرح پاکستان کی معاونت سے دوحہ میں جاری افغان امن مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوتے نظر آئے۔ مگر ٹرمپ نے ایک وعدہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ہندوئوں اور ان کے ہندوستان کو اپنے عہد اقتدار میں عزیز تر رکھنے کا بھی کیا ہوا تھا۔ پاکستان کی معاونت سے افغان امن مذاکرات کسی حتمی معاہدے پر منتج ہو جاتے تو ہندوئوں اور ہندوستان کو عزیز تر رکھنے کے وعدے کی شائد ٹرمپ پاسداری نہ کر پاتے چنانچہ اس ’’پاسداری‘‘ کا اہتمام بھی مودی سرکار نے کابل میں امریکی سفارتخانہ کے باہر خودکش حملہ کرا کے اور طالبان کا اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا خود ساختہ بیان جاری کر کے کیا۔ سو ٹرمپ کومذاکرات کی میز الٹانے کا بہانہ مل گیا اور انہوں نے محض تین ٹویٹر پیغامات کے ذریعے پاکستان کی دس ماہ کی محنت پر پانی پھیر دیا۔ تو بھائی صاحب۔ ایسے ماحول میں ثالثی کی پیشکش کے بار بار اعادے والی ٹرمپئی سیاست سے علاقائی اور عالمی امن کی فصل کاشت ہونے کی ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی۔ جناب ذرا ہوشیار اور خبردار رہیئے کہ ’’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں‘‘
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024