جمعۃ المبارک ‘ 13 ؍ محرم الحرام 1441ھ ‘ 13ستمبر 2019 ء
کوئی کبوتر ہی میرا خط پہنچا دے۔ کشمیری طالبہ کی بی بی سی کیلئے ڈائری
اس کشمیری طالبہ کی کبوتر کے ہاتھوں وادی کی صورتحال بیرون دنیا تک پہنچانے کی خواہش سرآنکھوں پر مگر اس وقت ظالم افواج جس طرح بام و در پر مورچہ زن ہیں ان کے ہوتے ہوئے تو کوئی اعلیٰ نسل کا کبوتر بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر نامہ بر بننے کو تیار نہ ہو پائے گا۔ کیونکہ ہر طرف … ’’پر کترنے کو لگی ہیں قینچیاں دیوار پر‘‘
والی حالت ہے۔ ہمارے جدید دور کے کبوتر یعنی نیٹ وائی فائی وغیرہ تک کے بھارت نے وادی کشمیر میں پر کتر ڈالے ہیں۔ باالفاظ دیگر ان کبوتران کو ذبح کر ڈالا ہے۔ دور دور تک مرگ امید کے آثار نظر آ رہے ہیں ان حالات میں بے چارہ کبوتر کیا کر پائے گا۔ سوات کے ابتر حالات میں ملالہ نے بی بی سی کو حالات سے آگاہ کرنے کے لیے خطوط لکھے یا ڈائری لکھی تھی۔ ملالہ اس وقت سکول کی طالبہ تھی۔ مگر یہ کشمیری طالبہ تو انگریزی میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ اس کی شستہ انگریزی ان تمام حالات کو دنیا کے سامنے لانے میں معاون ہو رہی ہے۔ اس کی ڈائری سے پتہ چلتا ہے کہ قدم قدم پر جہاں زندگی مسکراتی تھی آج موت کا رقص خاردار تاریں بچھا کر قدم قدم پر فوجی بندوقوں کے سائے میں جاری ہے۔ دنیا کی بے حسی اور کشمیریوں کی مظلومیت کا جو المیہ یہ طالبہ بیان کر رہی ہیں وہ بی بی سی کی توسط سے دنیا بھر کے لاکھوں سامعین سن رہے ہیں۔ کاش یہ نوحہ سننے والے کشمیریوں کو ان حالات سے نکالنے میں بھی ان کی مدد کریں اور پاکستانی کوششوں کا بھرپور ساتھ دیں تو کشمیریوں کے دن بھی بدل سکتے ہیں۔
٭٭٭٭
پی ٹی آئی کے سابق رکن اسمبلی بلدیو سنگھ نے بھارت میں سیاسی پناہ مانگ لی
نجانے سردار بلدیو سنگھ کون سا دیوا بالنے بھارت کے چرنوں میں جا پڑے ہیں۔ پاکستان میں تو انہوں نے ساری عمر گزاری۔ یہاں کی عدالتوں نے انہیں قتل کے الزام سے بری کیا تھا۔ اب اس کا صلہ وہ یہ دے رہے ہیں کہ بیوی بچوں سمیت بھارت جا کر وہاں اس موذی سے سیاسی پناہ طلب کر رہے ہیں جس کے ہاتھ ہزاروں بے گناہ ، مسلمانوں ، دلتوں، عیسائیوں اور سکھوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ بلدیو سنگھ تو اپنی سکھ جاتی کے ڈاکٹر کرن سنگھ کے قتل کے الزام میں پکڑا گیا تھا۔ یہ کوئی معمولی شخص نہیں تھا۔ پی ٹی آئی کا ممبر خیبر پی کے اسمبلی رہ چکا ہے۔ اسے تو شکر گزار ہونا چاہئے تھا پاکستان کی حکومت کا کہ اس کی رواداری اور اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک کی وجہ سے وہ صحیح سلامت آج بھارت میں ناچتا پھرتا ہے۔ چلیں اچھا ہے اس دانت کا نکالنا ہی بہتر ہے جو درد کا باعث بنے۔ اب دیکھتے ہیں بلدیو سنگھ بھارت میں سیاسی پناہ لے کر کتنا عرصہ سکھ چین سے بسر کرتا ہے۔ وہ کچھ بھی کرلے رہے گا وہاں بھی اچھوت بن کر کہ یہ پاکستانی ہے۔ ایسے لوگوں کی کہیں عزت نہیں ہوتی۔ پورے بھارت کے سکھ اس وقت کرتارپور بارڈر کھولنے پر خوشیاں منا رہے ہیں ۔ گوردوارہ کرتارپور کی یاترا کے لیے بے چین ہیں۔ ایسے میں یہ شخص پاکستان کے بارے میں بدگمانی پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہاں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو بلدیو سنگھ یوں ٹہلتے ٹہلتے بھارت نہ گیا ہوتا۔ قتل کیس میں کسی جیل میں پڑا سڑ رہا ہوتا۔
ہالینڈ ہاکی ٹیم کے کھلاڑی بیمار پڑ جائیں تو ہم جیت سکتے ہیں۔ سابق اولمپین
اب یہ تو سراسر مرزا صاحباں والی بات ہے جس میں شاعر صاحبان کی زبانی اس خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ …؎
دو چار مرن گوانڈناں آدھایاں نوں تاپ چڑھے
گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے
یعنی آس پڑوس کی عورتوں میں سے کچھ مر جائیں اور باقی بیمار ہوں مبتلائے بخار ہوں تاکہ گلیاں ویران اور خالی ہو جائیں ان میں میرا پیارا مرزا پھرتا ہوا آئے۔ مگر افسوس ایسا تو صاحباں کی ہزار خواہش کے باوجود نہ ہوا اور مرزے کو خود صاحباں کے بھائیوں نے اگلے جہاں پہنچا دیا۔ اب ہمارے سابق اولمپئن ہاکی میں قومی ٹیم کی بدترین کارکردگی دیکھتے ہوئے ایسی ہی خواہش کر رہے ہیں کہ ہالینڈ کی ہاکی ٹیم کے کھلاڑی بیمار پڑ جائیں اور کھیل نہ سکیں یوں پاکستانی ہاکی ٹیم اپنا میچ جیت سکتی ہے۔ کاش ایسا ہو سکتا ۔ ہم کسی کی بیماری کی کیا دعا کریں۔ اس وقت تو خود ہماری قومی کھیل ہاکی کی حالت وینٹی لیٹر پر پڑے کسی مریض کی طرح ہے۔ جس کی طرف سے دھڑکا لگا رہتا کہ اب گیا تب گیا۔ ہمارے سابق اولپمئن تک ہاکی کی طرف سے مایوسی کا اظہار کر چکے ہیں۔ حکومت کی قومی کھیل سے بے اعتنائی اور پی ایچ ایف میں سیاست اور کرپشن نے میرٹ کا بیڑا غرق کر رکھا ہے۔ کہاں وہ عروج کے دن کے ہاکی میں ہمارا نام دنیا بھر میں گونجتا تھا کہاں یہ حال کہ ہم منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ اب شاید ہی کوئی بڑا ایونٹ ہو گا جس میں ہم نے کامیابی حاصل کی ہو۔
٭٭٭٭
وزارت حقوق انسانی میں پہلی خواجہ سرا کو ملازمت مل گئی
چلیں اس طرح دنیا کے سامنے ہمارا سافٹ امیج بحال ہونے میں مدد ملے گی۔ ورنہ آج تک دنیا بھر میں ہمارے معاشرے کو قدرے سخت مزاج معاشرہ سمجھا جاتا ہے جہاں عورتوں کو پورے حقوق حاصل نہیں تو بھلا اور خواجہ سرائوں کی کون سنے۔ مگر اب حکومت کے متعدد اقدامات کی وجہ سے تیسری جنس کے حامل ان لوگوں کی بھی سنی گئی ہے جو سڑکوں گلیوں میں ناچ گا کر یا بھیک مانگ کر ذلت بھر زندگی بسر کرنے کی بجائے عام انسانوں کی طرح عزت کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ اب یہ گلیوں بازاروں میں ، شادی بیاہ ، ختنوں کی تقریبات یا میلے اور سرکس میں ناچنے گانے ٹھمکے لگانے کی بجائے دفاتر میں باعزت طریقے سے روزگار کماتے نظر آئیں گے۔ وزارت انسانی حقوق میں پہلی خواجہ سرا کا ریسورس پرسن کے طور پر ملازم ہونا پاکستان بھر کے پڑھے لکھے خواجہ سرائوں کے لیے مشعل راہ ہے کہ وہ بھی آگے بڑھ کر بہتر زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ اب انہیں ایسے ویسے القابات سے پکارنے والے بھی دفتروں میں کام کرتا دیکھ کر ادب سے بی بی جی ذرا ہمارا یہ کام بھی کر دو کہتے نظر آئیں گے۔ اب انہیں بھی اپنے ہنسی مذاق اور تالیاں بجانے یا ٹھمکا لگانے والی عادت پر قابو پانا ہو گا۔ یہ تو نہیں ہو سکتا ہے دفتر میں بھی یہ ہائے اوئی کرتے نظر آئیں اور باقی دفتر والے ان کی ادائوں پر لٹو ہو رہے ہوں۔ اس لیے احتیاط لازم ہے کہ کہیں دفتر میں ہی…؎
پاویں ہوے لڑائی پاویں ہوے جھگڑا
میں تو ڈالوں گی آج ساری رات بھنگڑا
ہوتا نظرنہ آئے ۔