تین روزہ دورے پر آئے ہوئے چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کی پاکستان موجودگی کے موقع پر حیران کن بات سامنے آئی کہ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری یعنی ’’سی پیک‘‘ کے مسئلے پر حکومت خدشات کا شکار ہے۔ اور معاہدے کو ری ویو کرنا چاہتی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے چند ہفتے قبل دئیے گئے بیان سے یہ تو واضح ہو گیا تھا کہ امریکہ کو شدید خدشہ لاحق ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت اگر پاکستان کو قرضہ دیا گیا تو اس کا کچھ حصہ’’سی پیک‘‘ پراجیکٹس کے قرضے اتارنے کے لیے استعمال ہو گا۔ امریکہ پاکستان اور چین کی قربت پر بھی معترض ہے اور کھلم کھلا اس قریبی، دوستانہ اور سٹرٹیجک رشتے پر نکتہ چینی کرتا رہتا ہے۔ اس تناظر میں مشیر برائے تجارت، ٹیکسٹائل، انڈسٹریز، پیداوار اور سرمایہ کاری عبدالرزاق دائود کا’’سی پیک‘‘ کے بارے میں برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو دیاگیا تازہ انٹرویو خاصا چونکا دینے والا ہے۔ رزاق داود بزنس ٹائیکون سید بابر علی کے قریب ترین حلقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ملک کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی LUMS کی تعمیروترقی اور ترویج میں ان کا نمایاں کردارہے۔موصوف پرویز مشرف دور میں بھی وزیر تجارت تھے۔ انتہائی وضع دار شخصیت ہیں اور ان کی نیت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا لیکن عین اس وقت جب چینی وزیر خارجہ پاکستان کے دورے پر تھے، ان کا ’’فنانشل ٹائمز‘‘ کے ساتھ انٹرویو میں یہ کہنا کہ سابق حکومت نے چین کے ساتھ ’سی پیک‘ کا بہت خراب معاہدہ کیا اور ہوم ورک نہ کر کے چین کو بہت زیادہ رعایتیںدے رکھی ہیں، رزاق دائود نے یہ انتہائی چونکا دینے والی بات بھی کہہ ڈالی کہ سی پیک کے تمام معاہدوں کو ایک سال کے لیے ملتوی کر کے ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ حالانکہ اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر شائع کیا گیا۔
اس پر منصوبہ بندی کے وزیر خسرو بختیار نے چینی وفد سے پلاننگ کمیشن میں ملاقا ت کے بعد بالکل اس کے برعکس بات کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ’’سی پیک‘‘ کی بنیاد کو وسیع کرتے ہوئے خصوصی اقتصادی زون کے معاملے میں پاکستان کے دوست ممالک کو شامل کر نے پر بھی اتفاق رائے کیا گیا ہے۔ خسرو بختیار کا دوٹوک الفاظ میں کہنا تھا کہ ان کی حکومت ’’سی پیک‘‘ کے ذ ریعے اقتصادی ترقی اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے بھرپور پالیسی پر کار بند رہے گی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بھی کہنا ہے کہ ان کی حکومت کو ’سی پیک‘ پرا جیکٹس کی سٹرٹیجک اور قومی اہمیت کا پورا ادراک ہے۔ اسی لیے ’سی پیک‘ پراجیکٹس حکومت کی اولین ترجیح رہیں گے۔ دوسری طرف وزیرخزانہ اسد عمرنے چین کو یقین دلایا کہ ہم ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی طرح یک طرفہ طور پر ’سی پیک‘ پراجیکٹس منسوخ نہیں کریں گے بلکہ احتیاط سے ان پر مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کریں گے۔
ان سب باتوں سے ہٹ کر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ سی پیک پاکستان کا اقتصادی مستقبل ہے، اس کی سکیورٹی پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے چین کے سفیر سے ملاقات کی جس کے دوران باہمی دلچسپی اور علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔آرمی چیف کا دو ٹوک الفاظ میں سی پیک کے حوالے سے بیان دینا اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ وہ سی پیک پہلے سے زیادہ سرعت اور تیزی کے ساتھ جاری رہے گا۔ کیوں کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک)دنیا میں جاری اس وقت سب سے بڑا اقتصادی و ترقیاتی منصوبہ ہے جسکی ابتدائی مالیت چھیالیس ارب ڈالر ہے جو مزید بڑھ کر باسٹھ ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ اس منصوبے میں طویل کشادہ اور محفوظ سڑکیں، توانائی کے منصوبے، انڈسٹریل پارکس اور گوادر بندرگاہ کی تعمیر و انصرام شامل ہے جسکی تکمیل، دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متاثرہ پاکستان کے لیے اقتصادی لحاظ سے ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔لیکن پرانی حکومت کے کچھ مبہم معاہدوں کی وجہ سے کچھ مشکلات ہیں جنہیں عمران خان اور اُن کی ٹیم دور کرنا چاہتی ہے۔ جسے غیر سنجیدہ سوالات، افواہوں اور پروپیگنڈوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ میری ذاتی رائے میں اب یہ منصوبہ مکمل شفافیت کے ساتھ پہلے سے زیادہ تیزی سے جاری رہے گا۔ 32 منصوبے اسی سال مکمل ہو جائیں گے۔ ان منصوبوں میں توانائی کے 22 پروجیکٹ شامل ہیں جبکہ بیس ارب ڈالر کے ان منصوبوں سے پاکستان کو 8300 میگا واٹ بجلی میسر ہو گی جس سے پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو سکے گا۔اقتصادی منصوبوں کے لیے چھیالیس ارب ڈالر کی رقم میں سے تینتیس ارب ڈالر کی چینی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کی ہے جبکہ بارہ ار ب ڈالر کا سستا ترین قرضہ بھی دیا جائے گا جو پندرہ سے بیس سال کی مدت میں آسان ترین شرائط پر واپس کیا جاسکے گا۔ یہ راہداری منصوبہ(سی پیک) پندرہ سال کے لیے ہے۔ پاکستان، ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس اقتصادی راہداری منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیائی ممالک کے تین ارب عوام کو فائدہ پہنچے گا۔ گوادر پورٹ مکمل ہونے پر دوہزار تیس تک پاکستان کو تقریباًنو سے دس ارب ڈالر کا سالانہ ریونیو حاصل ہو گا اور پچیس لاکھ کے قریب پاکستانیوںکو روزگار کے مواقع حاصل ہونگے۔لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوگا، صنعتی ترقی کاپہیہ چلے گا اور عوام خوشحال ہونگے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ جب سے پاکستان اور چین کے مابین سی پیک منصوبے کا آغاز ہوا ہے اور گوادر بندرگاہ کو توسیع دینے اور اسے مستقبل میںمغربی دنیا سے تجارت کے فروغ کے لیے استعمال کیے جانے کی اطلاعات آ رہی ہیں بھارت کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔پہلے اس نے ایران کے چاہ بہار بندرگاہ کو ترقی دینے کے لیے سرمایہ کاری کر کے اسے گواردر کے مد مقابل لانے کی کوشش کی مگر نہ صرف ایران بلکہ پاکستان کی جانب سے چاہ بہار اور گوادر کو ایک دوسرے سے تعاون کے لیے اہم قرار دینے کی بات کی گئی تو بھارت کسی نہ کسی طور سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے حربوں پر اُتر آیاجبکہ علاقے کے دوسرے بہت سے ممالک کی جانب سے اس منصوبے میں شمولیت کی خواہش اورا علانات نے بھارت کی نیندیں اُڑا دی ہیں اور وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا کہ کسی نہ کسی طور اس منصوبے کو متنازعہ بنا کر ناکامی سے دوچارکیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے گلکت بلتستان کو متنازعہ قرار دے کر چین کو اس منصوبے سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔لیکن چین نے پاک دوستی کو دوام بخشنے کے لئے بھارت کی سازشوں پر کان نہیں دھرے۔
اسی لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کا معاشی مستقبل ہے اور اس کی سکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا ، میرے خیال میں یہ بیان پاکستان بھر میں قومی اطمینان کا باعث بنا ہے۔ یہ بات سپہ سالار نے چین کے سفیر سے ہونے والی ملاقات کے دوران کہی۔ جس میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سکیورٹی کے مسائل اور سی پیک کے مستقبل کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا۔ مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے سی پیک کی سکیورٹی کے حوالے سے بیان پاکستان کی اس کمٹمنٹ کا اظہار ہے جو چین اور پاکستان کے درمیان سی پیک کے تحت جاری منصوبوں پر کی گئی ہے۔ لہٰذا نئی پیدا شدہ صورتحال میں دیکھنا یہ ہو گا کہ چین کے وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے دوران پاکستان نے سی پیک کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ سی پیک کے تحت منصوبوں کی رفتار اور بڑھائی جائے جبکہ چین کا کہنا تھا کہ سی پیک کو پاکستان کی ترقی اور ضروریات کے مطابق آگے لیکر چلیں گے۔لہٰذااس حوالے سے میڈیا پر چلنے والی خبروں کا حکومت کو نوٹس لینا چاہیے کہ سی پیک بند ہو رہا ہے یا مخصوص وقت کے لیے ملتوی کیا جا رہا ہے۔ ورنہ اس قسم کی خبریں ’’ڈان لیکس‘‘ بنتے دیر نہیں لگاتیں جو پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہے!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024