میاں نواز شریف کے چہرے کا کرب بتا رہا تھا۔ ایس توں ڈاڈا دکھ نہ کوئی ۔۔۔ دنیا وچھڑے نئیں پروا، غم خوار نہ وچھڑ۔۔۔ہمسفر کی طویل رفاقت کے بعد جدائی بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ بیگم کلثوم نواز پاکستان کی سیاست میں ایک باعزت نام ہے۔ میں انہیں پر وقار خاتون کہا کرتی ہوں اور ان کی شخصیت کی تعریف میں کئی کالم بھی لکھے۔ ایک دیندار مہذب خوش اخلاق با مروت با کردار خاتون تھیں۔ ہماری پہلی ملاقات مدینہ منورہ میں ہوئی اور آخری ملاقات دو سال پہلے وزیر اعظم ہائوس میں ہوئی۔ مسلم لیگی سیاسی پالیسیوں سے قطع نظر بیگم صاحبہ کی ذاتی طور پر معترف ہوں۔ایک شفیق اور پیار کرنے والی خاتون تھیں۔ ہماری جب بھی ملاقات ہوتی حرم شریف کی روداد سنایا کرتیں اور کہتیں کہ ہم حرم مدینہ کی ساتھی ہیں۔ میری مسلم لیگ ن کی غلط پالیسیوں پر بے باک تنقید تحمل سے سنتیں اور ان میں بہتری لانے کی حمایت کرتیں۔ سیاسی و غیر سیاسی موضوعات پر گپ شپ ہوتی۔ دو سال قبل آخری ملاقات کے موقع پر تمام گفتگو کا محور مسجد نبوی میں گزرا وقت رہا۔بیگم کلثوم نواز سے جتنی مرتبہ بھی ملاقات ہوئی پاکستان کی ایک پروقار ، سمجھدار اور با اخلاق خاتون کے روپ میں پایا۔ بیگم کلثوم نواز ایک با حیا، مذہبی ، اور با وفا خاتون تھیں۔شریف خاندان کی مشرقی روایات برقرار رکھے ہوئے تھیں۔شریف خاندان کی بہو بیٹیاں مشرقی و مذہبی روایات کا لحاظ رکھنے کی پابند ہیں۔ عام سیاسی گھرانوں کی طرح بے مہار نہیں۔ بیگم کلثوم نواز کو کئی مرتبہ اس ملک کی خاتون اوّل بننے کا اعزاز حاصل رہالیکن حیا اور مشرقیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ پچیس تیس برس سے رمضان المبارک کا آخری عشرہ مدینہ منورہ میں گزارنے کی روایت کو قائم رکھا۔پابند صوم صلوٰۃ اور چھو ٹوں بڑوں کا احترام کرنے والی ماں بہو اور بیوی تھیں۔ بیگم کلثوم نواز نے پرویز مشرف کے دور میں جو افسوسناک سلوک دیکھا اس کے بعد تہیہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی اولاد کو سیاست سے دور رکھیں گی۔ بیگم کلثوم نے چہروں سے نقاب اترتے دیکھے ہیں۔ 2002 میں میاں نواز شریف میاں شہباز شریف اور بیگم کلثوم نواز سے مدینہ منورہ میں ملاقات اور ان کے جلا وطنی کے بعد پہلے تفصیلی انٹرویو نے مجھے ان لوگوں سے جذباتی طور پرقریب کر دیا۔ پردیس میں رہنے کی وجہ سے میں نے شریف خاندان کی جلا وطنی کو جذباتی طور پر محسوس کیا۔مدینہ منورہ کی ملاقات میں غیر سیاسی تعلق بن گیا۔ اس ملاقات کے کچھ عرصہ بعد میاں شہباز شریف کو کینسر کا مرض لاحق ہو گیا اور علاج کے لئے نیو یارک آنا پڑا۔ہمارا ان سے رابطہ ہوا اور مدینہ کی ملاقات کے حوالہ سے میاں شہباز شریف کے دوران بیماری ان سے اور ان کی فیملی سے رابطے میں رہے۔یاد رہے کہ وہ دور میاں صاحبان کے زوال کا دور تھا اور جب تیسری مرتبہ اقتدار میں آئے تو ہم نے ان کے خلاف کھل کر بھی لکھا۔ تعلق مدینہ منورہ سے بنا تھا اور مدینہ والے کے صدقے حکمرانوں کی خامیاں بھی کھلے دل سے لکھیں البتہ بیگم کلثوم نواز کی شخصیت پر ہمیشہ توصیفی کالم لکھے۔ آج بیگم صاحبہ کی وفات کی خبر نے افسردہ کر دیا۔ اللہ ان کی مغفرت کرے اوران کی اگلی منزلیں آسان فرمائے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024