بیگم کلثوم نواز، باتیں اور یادیں!

”ہر انسان موت کا ذائقہ چکے گا“ ہر لمحے جنم لیتے اور عدم آباد روانہ ہوتے انسان اس فرمان الہٰی کی عملی توثیق ہیں، اس دنیا میں جو آیا وہ یہاں سے واپس جائے گا۔ بیگم کلثوم نواز کی زندگی کا چراغ گل ہو گیا ہونا ہی تھا کہ اس فانی دنیا سے ان کا رزق اٹھ گیا تھا اور سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی جس نے زندگی کو باندھ رکھا تھا۔
بیگم کلثوم نواز کی طویل ازدواجی زندگی کے تین ادوار ہیں۔ پہلا دور خالصتاً گھریلو خاتون، یہ شناخت تادم آخر برقرار رہی۔ دوسرا دور میاں نواز شریف کی گرفتاری کے بعد مقدمات کی پیروی ا ور ان کی رہائی کے لئے سڑکوں پر نکل کر سیاسی جدوجہد۔ تیسری مرتبہ اقتدار کے بعد میاں نواز شریف کی گرفتاری، مقدمات اور سزائے قید بھی ایک جنگ لڑتی نظر آتی ہیں مگر یہ جنگ نواز شریف کی رہائی کے لئے نہیں بلکہ وہ اپنی علالت اور کینسر جیسے موذی مرض کے چنگل سے رہائی کی جنگ تھی۔ پہلی جنگ کا میدان سڑکیں تھیں دوسری جنگ کا دائرہ ہسپتال کے بیڈ تک محدود تھا۔ پہلی جنگ جو سیاسی جدوجہد تھی اس کا میں نے بہت قریب سے مشاہدہ کیا جبکہ دوسری جنگ کا احوال ذرائع ابلاغ سناتے رہے۔ ان دونوں جنگوں میں ایک عجیب سی بات یہ رہی پہلی جنگ کے بارے میں یہ شکوک و شبہات سر اٹھاتے رہے ایک خاتون خانہ جو سیاسی اور احتجاجی سیاست کے تقاضوں سے ناآشنا ہیں، کیا کامرانی کی منزل پا سکیں گی جبکہ دوسری جنگ کے حوالے سے بے یقینی کے سائے پھیلے رہے کیا وہ دوبارہ صحت مند زندگی کی جانب لوٹ سکیں گی۔ پہلی جنگ کامیاب رہی، دوسری جنگ بلاشبہ وہ ہار گئیں کیونکہ زندگی کو ایک ثانیہ دراز کرنا کسی بھی انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔
میرا مشاہدہ ہے میاں نواز شریف نے دوران اسیری اتنی پریشانی نہ اٹھائی ہو گی جتنی اذیت بیگم کلثوم نواز نے ان کی رہائی کے لئے جدوجہد میں برداشت کی۔ اس کے اندازے کے لئے محض ایک مثال کافی ہے۔ صبح سات بجے کی فلائٹ سے کراچی روانگی رحمت حسین جعفری کی عدالت میں میاں صاحب کی پیشی میں حاضری، تین بجے کی فلائٹ سے واپسی ائر پورٹ سے ماڈل ٹا¶ن آمد، مختلف وفود سے ملاقاتیں، رہنما¶ں سے صلاح مشورے اور دیگر سرگرمیاں، رات بارہ ایک بجے ماڈل ٹا¶ن سے جاتی عمرا روانگی، صبح سویرے پھر واپس ماڈل ٹا¶ن اور رات گئے تک مختلف سرگرمیاں۔ میاں نواز شریف کی ہدایات کی روشنی میں نوائے وقت میں شائع ہونے والے اشتہارات کی نوک پلک میں سنوارا کرتا۔ کیپٹن صفدر شریک کار ہوتے۔ ایک دن حسب معمول مصروفیت رات ایک بجے تک جاری رہی اگلے روز کے لئے اشتہار کو آخری شکل دینی تھی بیگم صاحبہ نے کہا ”بخاری بھائی، آپ جاتی عمرہ چلو وہاں ہی یہ اشتہار بنانا ممکن ہو گا“۔ رات دو بجے جاتی عمرہ پہنچے۔ ڈھائی پونے تین بجے تک اشتہار مکمل ہوا تو میں نے ان سے کہا ”اب آپ آرام فرما لیں“ جواب دیا بھائی! میں آرام کہاں سے فرما لوں۔ ابھی تو عشاءکی نماز، کچھ تلاوت اور ذکر باقی ہے“۔ ان کی مجلس پاکستان میں ہونے والی تقریر کو بھی آخری شکل دینی تھی۔ انہوں نے کہا ”بھائی آپ صبح 9 بجے ماڈل ٹا¶ن آجائیں، میری قریب ہی گرین ٹا¶ن میں رہائش تھی میں نے اندازہ لگایا کہ وہ نماز، تلاوت اور ذکر سے چار بجے فارغ ہوئی ہوں گی پھر فجر کا وقت ہو گیا ہو گا۔ فجر کے بعد سو کر ساڑھے دس گیارہ بجے سے پہلے کہاں آسکیں گی چنانچہ میں بڑے آرام سے دس بجے کے بعد ماڈل ٹا¶ن پہنچا تو وہاں کے کارکن امجد سیال نے بتایا کہ بیگم صاحبہ تو ساڑھے آٹھ بجے کی آئی ہوئی ہیں دو مرتبہ آپ کا پوچھ چکی ہیں۔ پھر رات بارہ ایک بجے تک مصروفیت۔ اس دوران کراچی، اٹک اور دیگر شہروں کے دورے۔ یہ مسلسل بے آرامی اگر صحت پر اثرانداز نہ ہوتی تو کیا ہوتا۔
مجھے بیگم کلثوم نواز ایک سچی اور صاحب کردار خاتون نظر آئیں۔ ایسے لمحات میں جب اپنی سیاسی جدوجہد کے لئے انہیں افرادی قوت درکار تھی انہوں نے سچ کا دامن تھامے رکھا۔ ایک روز میں نے ان سے کہا آپ ہر خطاب میں یہ نہ کہا کریں کہ ”میاں صاحب کی رہائی کے بعد میں واپس کچن میں چلی جا¶ں گی“۔ پوچھا کیوں؟ میں نے عرض کیا ”اس طرح توقعات سے بندھے لوگ ساتھ چھوڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا.... ”بخاری بھائی جو میاں صاحب کے لئے میرا ساتھ دینا چاہتے ہیں وہ سر آنکھوں پر ۔جو توقعات سے بندھا ہے وہ ابھی ساتھ چھوڑ جائے۔ میں جھوٹی امیدیں نہیں دلا سکتی“۔ پھر سب نے دیکھا میاں صاحب کی رہائی کے بعد وہ کچن میں واپس چلی گئیں حتٰی کہ تیسری مرتبہ خاتون اول بننے کے بعد بھی وہ گھریلو خاتون ہی رہیں۔ اس موقع پر مریم نے کہا میں ایسے سب لوگوں کے نام لکھ رہی ہوں موقع ملا تو انہیں نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔
بیگم کلثوم نواز کتنی متواضع شخصیت تھیں اس کا ذاتی تجربہ مجھے یوں ہوا 2007ءمیں اللہ’ سبحانہ‘ تعالیٰ نے بیوی بچوں سمیت عمرہ کی سعادت نصیب فرمائی میں نے مکہ معظمہ سے کیپٹن صفدر کو فون کیا انہوں نے کہا.... ”بخاری صاحب ملے بغیر نہیں جانا میں گاڑی بھجوا رہا ہوں جدہ آ جائیں“ میں نے کہا اس وقت ممکن نہیں صبح آسکوں گا۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے گاڑی صبح آجائے گی۔ تھوڑی دیر بعد عمران یا کامران (نام صحیح یاد نہ رہنے پر معافی چاہتا ہوں) جو سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے ان کا فون آیا کہ بیگم صاحبہ نے کہا ہے اگر بچے بھی ساتھ آئے ہیں ان کو بھی ساتھ لائیں۔ لنچ ساتھ کریں گے میں نے اپنی بیوی بچوں سے کہا وہ ناراض ہوئے میری بیوی نے کہا آپ کو یہاں آکر بھی سیاست کی پڑی ہے نہ جانے کب آنا ہو ہم صبح حرم میں جائیں گے آپ جدہ جائیں۔ بیگم صاحبہ کی طرف سے پانچویں فون پر میں نے بیوی بچوں کو بمشکل آمادہ کیا وہ سارا دن میرے بیوی بچوں نے بیگم صاحبہ اور مریم کے ساتھ گزارا۔ انتقال کی خبر نے میری دونوں بیٹیوں کو غم زدہ کر دیا ہے۔ وہ اس ملاقات اور دیگر واقعات کو یاد کر کے اشک بار ہو گئیں۔ بیگم صاحبہ کے حوالے سے بے شمار واقعات لوح ذہن پر محفوظ ہیں۔ ظاہر، کالم کی تنگ دامنی آڑے آرہی ہے۔
12 اکتوبر کو میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے وقت وہ ماڈل ٹا¶ن رہائش گاہ میں تھیں ان لمحات ، سیاسی جدوجہد، جدہ روانگی اور میاں نواز شریف کے خلاف مقدمات کی مکمل روداد ان کے وکلاءکے انٹرویوز کو جمع کرکے میں نے کتابی شکل دی جس پبلیشر سے بات کی اس نے لاکھوں کا مطالبہ کر دیا سب سے زیادہ 14 لاکھ اور سب سے کم 10 لاکھ روپے، ساتھ ہی مشورہ مفت ”ان لوگوں کے لئے یہ کوئی بڑی رقم نہیں ہے آپ کہیں وہ فوراً دیدیں گے“ میں نے سب سے عرض کیا ”اتنی رقم ان کے لئے دینا ناممکن نہیں مگر ان سے مانگنا میرے لئے ناممکن ہے۔ نتیجہ یہ کہ یہ کتاب آج بھی میری دراز میں غیر مطبوع شکل میں پڑی ہے۔
بیگم صاحبہ اگلی دائمی زندگی کی جانب لوٹ گئی ہیں جہاں ہر کسی نے جانا ہے ان کی یادوں کی روشنی ایک عرصہ قلوب و اذہان کو جگمگاتی رہے گی۔